حکیمانہ نصیحت
راوی:
وعن أبي
هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من خاف أدلج ومن أدلج بلغ المنزل . ألا أن سلعة الله غالية ألا إن سلعة الله الجنة . رواه الترمذي .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ اس کا دشمن رات کے آخری حصے میں دھاوا بولنے والا ہے تو وہ رات کے پہلے ہی حصے میں اپنے بچاؤ کا راستہ اختیار کر لیتا ہے تاکہ دشمن کی غارت گری سے محفوظ رہ سکے اور جو شخص رات کے پہلے حصے میں بھاگنا شروع کر دیتا ہے وہ منزل تک پہنچ جاتا ہے جان لو اللہ کا مال بہت قیمتی ہے جو نہایت اونچی قیمت چکائے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ، اور وہ اونچی قیمت اس کی راہ میں جان ومال کی قربانی ہے اور یاد رکھو اللہ کا مال جنت ہے۔ (ترمذی)
تشریح
" منزل" سے مراد مطلوب ومقصود کو حاصل کر لینا ہے طیبی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ کے ذریعے گویارہر و آخرت کی مثال بیان فرمائی ہے کہ شیطان اس کی تاک میں ہے نفس اور اس کی باطل آرزوئیں اس شیطان کی مددگار ہیں اور اس طرح وہ اس شخص کی مانند ہے جس کا طاقتور اور عیار دشمن اس پر دھاوا بولنے کے لئے تیار کھڑا ہو اور انتظار کر رہا ہو کہ رات کا پچھلا پہر آئے تو تاریکی اور سناٹے میں اس پر حملہ کر کے اس کو غارت وتباہ کر دے، پس اگر وہ رہر و آخرت ہوشیار ہو جائے ، راہ ہدایت پر ابتداء ہی سے چلنا شروع کر دے اور اپنے اعمال میں نیت کا اخلاص پیدا کر لے تو وہ یقینا شیطان سے اور اس کے مکر سے محفوظ رہے گا۔ ورنہ وہ اتنا عیار دشمن ہے کہ جہاں ذرا سی غفلت دیکھتا ہے اپنے مددگاروں کو لے کر فورا دھاوا بول دیتا ہے اور ہلاکت میں دال دیتا ہے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امر کی راہنمائی فرمائی کہ راہ آخرت پر چلنا نہایت دشوار، اور وہاں کی نعمتیں وسعادتیں حاصل کرنا سخت مشکل ہے، اس راستے میں ذرا سی غفلت وسستی بھی منزل کو دور سے دور کر دیتی ہے جب تک زیادہ سے زیادہ محنت وعمل اور سعی وکوشش نہیں کی جاتی وہ نعمتین اور سعادتیں پوری طرح حاصل نہیں ہو سکتیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے " جان لو اللہ کا مال بہت قیمتی ہے" کے ذریعے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مال یعنی جنت کی اگر کوئی قیمت ہو سکتی ہے اور اگر اس کو کسی چیز کے بدلے میں حاصل کیا جا سکتا ہے تو وہ اللہ پرستی وخدا ترسی اور نیک اعمال کا سرمایہ ہے اگر اللہ کی جنت حاصل کرنا چاہتے ہو تو نیکی کے راستے کو اختیار کرو، برائی کے نزدیک بھی نہ بھٹکو، اور زیادہ سے زیادہ اچھے کام کرو۔ اسی مفہوم کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ کے ذریعے اشارہ فرمایا ہے۔ آیت (والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثوابا وخیر املا)۔ اور جو اعمال صالحہ باقی رہنے والے ہیں وہ آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی ہزار درجے بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی ہزار درجے بہتر ہے۔ اور فرمایا۔ آیت (ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ) ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔