انسان کی نادانی وغفلت کی ایک مثال
راوی:
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما رأيت مثل النار نام هاربها ولا مثل الجنة نام طالبها . رواه الترمذي .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شدت وسختی ہولناکی کے اعتبار سے میں نے دوزخ کی آگ کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ اس سے بھاگنے والا سوتا رہے اور سرور وشادمانی کے اعتبار سے میں نے جنت کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ اس کا طلب گار سوتا رہے۔ (ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی طاقتور دشمن کو اپنے لئے مضرت رساں اور ہلاکت میں مبتلا کرنے والا جانتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس دشمن کی طرف سے غافل نہیں رہتا اور اطمینان کی چادر تان کر سو نہیں جاتا بلکہ ہر وقت ہوشیار رہتا ہے اور جس قدر ممکن ہوتا ہے اس سے دور بھاگتا رہتا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ دوزخ کی آگ، جو اپنی ہلاکت وآفرینی، سختی وشدت اور ہولناکی کے اعتبار سے بڑے سے بڑے طاقتور دشمن سے بھی زیادہ ہلاکت ونقصان پہنچانے کے درپے ہے لوگ اس کی طرف سے غافل پڑے رہتے ہیں اور اس سے دور بھاگنے کی کوشش نہیں کرتے، اور اگر دور بھاگتے بھی ہیں تو عین بھاگنے کی حالت میں نیند وغفلت کی اشکار ہو جاتے ہیں ۔ واضح رہے کہ دوزخ کی آگ سے دور بھاگنا اور اس کی طرف سے غفلت کا شکار نہ ہونا یہ ہے کہ انسان اللہ شناسی وخدا ترسی کا راستہ اختیار کرے گناہ ومعصیت کو ترک کر دے اور طاعت وعبادت کو لازم کرے۔
اس طرح دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پسندیدہ ومحبوب چیز کا طالب ہوتا ہے اور اس کو پوری طرح حاصل کرنا چاہتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس چیز کی طلب وخواہش کی راہ میں کسی غفلت وسستی کا روا دار نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہے اور وہ جتنی زیادہ سعی وکوشش کر سکتا ہے اس کے مطابق اس چیز کی طرف بھاگتا ہے اور اس کو پا لینا چاہتا ہے مگر کتنی عجیب بات ہے کہ جنت جو تمام تر خوبیوں، راحتوں شادمانیوں اور سعادتوں کا مرکز ومجموعہ ہے اس کی طرف سے انسان کس قدر غافل ہے اس کو پانے کی کوشش نہیں کرتا، اس کی طرف دوڑتا نہیں؟
واضح رہے کہ جنت کو پانا اور اس کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی رضا و خوشنودی کو ہر چیز پر مقدم رکھا جائے برائی کا راستہ چھوڑ کر نیکی کا راستہ اختیار کیا جائے اور طاعت وعبادت میں غفلت وسستی نہ کی جائے۔