اصل اعتبار خاتمہ کا ہے
راوی:
وعن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يبعث كل عبد على ما مات عليه . رواه مسلم .
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے دن ہر بندہ کو اسی حال پر اٹھایا جائے گا " ۔ (مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس حالت وحیثیت میں اس دنیا سے رخصت ہوگا اسی حالت میں قیامت کے دن اٹھے گا اور اس کا اخروی انجام اسی کے مطابق ہوگا ۔ اگر ایمان کی حالت میں مرا ہے تو ایمان ہی کی حالت میں اٹھے گا ، اگر کفر کی حالت میں مرے گا تو کفر ہی کی حالت میں اٹھے گا، اگر طاعت وعبادت کی حالت میں مرا ہے تو طاعت وعبادت گزار بندے کی حیثیت میں اٹھے گا، اگر گناہ ومعصیت کی حالت میں مرے گا تو نافرمان وگنہگار بندے کی حیثیت میں اٹھے گا، اسی طرح اگر اللہ کے ذکر کی حالت میں مرے گا تو ذاکر بندے کی حیثیت میں اٹھے گا اور اگر ذکر الٰہی سے غفلت ولاپرواہی کی حالت میں مرے گا تو غافل ولاپرواہ بندے کے طور پر اٹھے گا ۔ غرض یہ کہ قیامت کے دن اٹھنے اور آخرت میں فلاح یاب ہونے یا نامراد قرار دیئے جانے کا مدار خاتمہ پر ہے کہ کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا آخر کیسا گزرے اور اس کا خاتمہ کس حالت میں ہو۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے ۔
حکم مستوری ومستی ہمہ برخاتمہ است
کس ندانست کہ آخر بچہ حالت گذرد
تاہم بعض عارفین نے کہا ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے تئیں حضوری واستغراق کا ملکہ حاصل کر لیتا ہے اور اس کے دل میں ذکر اللہ کا جو ہر جگہ پا لیتا ہے تو اگر موت کے وقت سختی وشدت کے سبب یا بیماری کے غلبہ اور بے تابی واضطراب کی وجہ سے اس کے اندر استحضار واستغراق کی کیفیت میں کوئی کمی و کوتاہی راہ پا جائے تو یہ چیز اس کے حق میں نقصان دہ نہیں ہوگی بلکہ جسم سے روح کی جدائی کے بعد اس کی وہ کیفیت وحالت لوٹ آئے گی۔ لہٰذا اصل بات یہ ہے کہ ذکر الٰہی اور تعلق مع اللہ میں وہ ملکہ وکمال حاصل کیا جائے جو بہر صورت سرمایہ نجات ہے۔