مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان ۔ حدیث 1273

خسف اور مسخ کا عذاب اس امت کے لوگوں پر بھی نازل ہو سکتا ہے

راوی:

وعن أبي عامر أو أبي مالك الأشعري قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ليكونن من أمتي أقوام يستحلون الخز والحرير والخمر والمعازف ولينزلن أقوام إلى جنب علم يروح عليهم بسارحة لهم يأتيهم رجل لحاجة فيقولون ارجع إلينا غدا فيبيتهم الله ويضع العلم ويمسخ آخرين قردة وخنازير إلى يوم القيامة . رواه البخاري . وفي بعض نسخ المصابيح الحر بالحاء والراء المهملتين وهو تصحيف وإنما هو بالخاء والزاي المعجمتين نص عليه الحميدي وابن الأثير في هذا الحديث . وفي كتاب الحميدي عن البخاري وكذا في شرحه للخطابي تروح سارحة لهم يأتيهم لحاجة . ( متفق عليه )

حضرت ابوعامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے (یعنی ابوعام یا ابومالک نے) بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت میں کچھ ایسے گروہ اور طبقے بھی پیدا ہوں گے جو ریشمی کپڑے کو اور شراب کو اور باجوں کو حلال وجائز کر دیں گے اور ان میں سے کچھ لوگ بلند پہاڑ کے پہلو میں قیام کریں گے۔ یعنی وہ اپنے قیام کرنے کی جگہ ایسے مقامات پر بنائیں گے جو بلند و ممتاز اور نمایاں ہوں گے اور ان کی یہ ممتاز ونمایاں حیثیت دیکھ کر غریب ومحتاج لوگ اپنی حاجتین اور ضورتیں لے کر ان کے پاس آیا کریں گے رات کے وقت ان کے مویشی (جو چرنے کے لئے گئے ہوں گے) یٹ بھرے ہوئے واپس آیا کریں گے اور ان مویشیوں کو چرانے والا دودھ سے بھرا ہوا لے کر آئے گا لیکن جب کوئی شخص محتاج اپنی ضرورت لے کر ان کے پاس آئے گا اور یہ خواہش کرے گا کہ ان مویشیوں کے دودھ میں سے کچھ حصہ اس کی غذائی ضرورت پورا کرنے کے لئے لے جائے تو وہ اس کو یہ کہہ کر ٹال دیں گے کہ کل ہمارے پاس آنا، اور پھر رات ہی میں اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب اس طرح نازل کرے گا کہ ان میں سے بعض پر تو پہاڑ کی چوٹی الٹ دے گا (تاکہ وہ اس کے نیچے دب کر تباہ وہلاک ہو جائیں اور ان کا نام ونشان تک باقی نہ رہے اور ان میں سے بعض کی صورتوں کو مسخ کر کے بندر اور سور بنا دے گا جو قیامت تک اسی شکل وصورت میں باقی رہیں گے یا یہ کہ اس طرح کے بدکار لوگوں پر جو بھی عذاب نازل ہوگا وہ قیامت تک ان پر مسلط رہے گا)۔ (بخاری)
اور مصابیح کے بعض نسخوں میں " الخز" کے بجائے ح اور راء کے ساتھ " الحر" ہے اور ح کے زیر اور را کے جزم کے ساتھ " الحر " کے معنی عورت کی شرمگاہ کے ہیں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ زنا وبدکاری کو حلال وجائز کر دیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس لفظ کا حا اور را کے ساتھ یعنی " الحر" نقل ہونا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ کتابت کی غلطی ہے جو کاتب سے واقع ہو گئی ہے اصل میں یہ لفظ " خز' ہے (یعنی خ اور ز کے ساتھ) ۔ حمیدی اور ابن اثیر نے اس حدیث کے سلسلہ میں اس معنی کی تصریح کی ہے۔ نیز حمیدی کی کتاب میں امام بخاری ہی سے جو یہ روایت نقل کی گئی ہے اور اسی طرح خطابی نے شرح بخاری میں جو روایت نقل کی ہے ان دونوں میں (یروح علیہم بسارحۃ) کے بجائے یوں ہے تروح علیہم سارحۃ لہم یاتیہم لحاجۃ۔

تشریح
یا حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے اس عبارت کے ذریعہ بخاری نے اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے یہ شک وتردد ظاہر کیا ہے کہ اس حدیث کو یا تو حضرت ابوعامر اشعری نے نقل کیا ہے جو حضرت ابوموسی اشعری کے چچا اور اکابر صحابہ میں سے ہیں یا اس روایت کو بیان کرنے والے حضرت ابومالک اشعری ہیں جن کو اشجعی بھی کہا جاتا ہے اور یہ بھی ایک مشہور صحابی ہیں، تاہم واضح رہے کہ کسی حدیث کے راوی کی حیثت سے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اس قسم کا شک وتردد اس حدیث میں طعن کا موجب نہیں ہوتا کیونکہ صحابہ سب ہی ثقہ اور عدل ہیں، لہٰذا وہ حدیث جس صحابی سے بھی منقول ہوگی صحیح ہوگی۔
" خز" (خ کے زبر اور ز کی تشدید کے ساتھ اس خاص کپڑے کا نام ہے جو پہلے زمانے میں ریشم اور اون سے بنا جاتا تھا اس وقت یہ کپڑا بہت مستعمل تھا یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تابعین بھی اس کو پہنتے اور استعمال کرتے تھے لہٰذا علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں خز کا ذکر کر کے مذکورہ کپڑے کے استعمال کی جو ممانعت ظاہر فرمائی گئی ہے وہ شاید اس بنا پر ہے کہ اس کپڑے کو پہننے سے اہل عجم (غیر دیندار اور عیش پرستوں) کی مشابہت پیدا ہوتی ہے علاوہ ازیں وہ کپڑا اپنی بناوٹ اور قیمت کے اعتبار سے ایک ایسا لباس تھا جس کو دولت مند، عیش پسند لوگ اور اہل اسراف استعمال کرتے تھے، دوسری بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ اس حدیث کا اصل محمول وہ " خز" ہے جو اگرچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں رائج نہیں ہوا تھا مگر بعد میں اس کا رواج ہوا ۔ جس میں صرف ریشم ریشم ہوتا ہے اس اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بطور معجزہ، غیب (زمانہ مستقبل کی بات کی) خبر دینے کے طور پر ہوگا، اور اس مطلب کو تسلیم کرنے کی صورت میں " خز" پر" حریمہ" کا عطف تعمیم بعد تخصیص کے قبیل سے ہوگا۔
" معازف" کے معنی عود وطنبورہ وغیرہ جیسے باجوں کے ہیں اور یہ لفظ " عزف" یا " معزف" کی جمع ہے ویسے " عزف" اور " عزیف" اصل میں جن کی آواز کو کہتے ہیں اور اس مخصوص آواز کو بھی کہتے ہیں جو رات کے وقت جنگل وبیابان میں سیٹوں کے مشابہ سنائی دیتی ہے جس کو ہوا کی سرسراہٹ اور اس کی آواز سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اس امت میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو مختلف شکوک وشبہات پیدا کر کے دور دراز کار تاویلیں کر کے اور لغو و مہمل نظائر دلائل کے ذریعہ ان چیزوں کو حلال کر لیں گے جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے مثال کے طور پر بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ مردوں کے لئے خالص ریشم کا کپڑا پہننا اور استعمال کرنا اس صورت میں حرام ہے جب کہ وہ بدن سے متصل ہو، یعنی اس کپڑے اور بدن کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہ ہو، اگر وہ ریشمی کپڑا ابرے کے طور پر استعمال کیا جائے کہ بدن سے لگا ہوا جو کپڑا ہو وہ تو سوتی ہو اور اس کے اوپر کا کپڑا ریشمی ہو تو اس اس کے استعمال کی گنجائش ہے ، یہ بات الگ ہے کہ اس قول کی تحقیق کیا ہے اور یہ کس مرد کو واضح کرتا ہے لیکن اگر اس قول کو بنیاد بنا کر مردوں کے لئے مطلق ریشمی کپڑا پہننے اور استعمال کرنے کو جائز قرار دے لیا جائے اور لوگ بلاتکلف حریر ودیباج جیسے خالص ریشمی کپڑے پننے لگیں تو یہ کھلی ہوئی گمراہی ہوگی، چنانچہ یہی ہوا کہ جب امراء اور عوام خالص ریشمی کپڑے استعمال کرتے اور اور ان سے کہا جاتا کہ مردوں کے حریر و دیباج پہننا حرام ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ اگر یہ حرام ہوتا تو فلاں عالم نے یہ بات کیوں کہی ہوتی اور فلاں فلاں بزرگ نے ریشمی کپڑا کیوں استعمال کیا ہوتا؟ اس طرح وہ لوگ ایک حرام چیز کو حلال جاننے اور سمجھنے کی نہایت سخت برائی اور گناہ میں مبتلا ہوئے۔ اسی طرح مزامیر کا معاملہ کہ بعض علماء اور مشائخ کو سماع اور مزامیر سے تعلق رہا ہے جو اپنی جگہ پر ایک الگ بحث ہے اور اس کی تفصیل بہت طویل ہے اس بات سے قطع نظر کہ سماع و مزامیر سے ان کا تعلق کن حالت میں اور کن شرائط وپابندیوں کے ساتھ تھا، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان کے قول وفعل کو غلط طور پر بنیاد بنا کر لوگوں نے کس قدر گمراہیاں پھیلائی ہیں اور راگ رنگ باجے گا جے کی شیطانی مجلسوں کو " محفل سماع" کے نام پر شریعت کی حرام کردہ چیزوں کو نہ صرف حلال جانتے بلکہ ان کو نعوذ باللہ حصول ثواب کا ذریعہ ماننے کی گمراہی کو عام کیا گیا۔
واضح رہے کہ ابن ابی الدنیا نے مذکورہ روایت کو آلات لہو یعنی مزامیر کی مذمت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح نقل کیا ہے کہ یکونن فی ہذہ المۃ خسف وقذف ومسخ ذلک او اشربوا الخمرواتخذت القینات وضربوا بالمعازف۔
اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ جب لوگ ان چیزوں کو حلال جان کر ان کو اختیار کریں گے تو خسف ومسخ جیسے عذاب الٰہی میں گرفتار کئے جائیں گے۔
" نص علیہ الحمیدی الخ" اس عبارت کے ذریعے مؤلف مشکوۃ نے حمیدی اور ابن اثیر کے قول کو بطور دلیل اختیار کر کے اس امر کی تائید کی کہ لفظ " الحر" (ح اور ز کے ساتھ) واقعۃ کتابت کی غلطی ہے اور صحیح لفظ " الخز" (خ اور ز کے ساتھ) ہی ہے، لہٰذا کسی کا یہ گمان کرنا کہ یہ لفظ ح اورر کے ساتھ صحیح ہے حقیقت کے خلاف ہے تاہم مؤلف نے فی ہذا الحدیث کے الفاظ کے ذریعے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ یہ بحث صرف اس حدیث کے سلسلے میں ہے جو بخاری سے یہاں نقل کی گئی ہے ، ویسے " الحر" کا لفظ ایک دوسری روایت میں منقول ہے جس کو ابوداؤد وغیرہ نے نقل کیا ہے چنانچہ طیبی نے اس حدیث کو اپنی شرح میں ذکر کیا ہے لیکن بخاری کے مشہور شارح علامہ بن حجر نے جو بات کہی ہے وہ مؤلف مشکوۃ کے مذکورہ قول کے منافی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ بخاری کی اکثر روایتوں میں یہ لفظ ح اور را کے ساتھ یعنی " الحر" ہی ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ اپنی جگہ پر دونوں روایتیں صحیح ہیں۔
" تروح علیہم بسارحۃ" میں " سارحۃ" تروح کا فاعل ہے اور یہ اس بات کا قریبہ ہے کہ پہلی روایت (جس کو مؤلف مشکوۃ نے یہاں نقل کیا ہے) کے لفظ " بسارحۃ" میں حرف ب زائد ہے چنانچہ ترجمہ میں اسی کو محفوظ رکھا گیا ہے ، اسی طرح ان دونوں کتابوں (کتاب حمیدی اور بخاری کی شرح خطابی) میں " یاتیہم لحاجۃ" منقول ہوا ہے، یعنی ان دونوں کتابوں کی نقل کردہ حدیث میں اس جملے میں رجل کا لفظ نہی ہے یا یہ مطلب ہے کہ ان دونوں نے بھی رجل کا لفظ نقل تو کیا ہے لیکن " لحاجۃ" کے بعد اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس امت کے لوگوں کو بھی خسف اور مسخ کے عذاب میں گرفتار کیا جا سکتا ہے جیسا کہ گزشتہ امتوں کے لوگوں کی سرکشی اور بداعمالیوں کی وجہ سے ان کو اس عذاب میں مبتلا کیا گیا ، لہٰذا وہ احادیث کہ جو اس بات کی نفی میں منقول ہیں اور جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امت محمدیہ پر اس طرح عذاب نازل نہیں ہوں گے وہ یا تو اس امت کے ابتدائی زمانہ پر محمول ہیں اور آخری زمانہ ان کے دائرہ مفہوم سے باہر ہے اور یا اجتماعی طور سے پوری امت کے خسف ومسخ پر محمول ہیں، نہ کہ انفرادی طور سے بعض کے بارے میں نفی پر۔

یہ حدیث شیئر کریں