دوزخ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک مشاہدہ
راوی:
وعن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عرضت علي النار فرأيت فيها امرأة من بني إسرائيل تعذب في هرة لها ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض حتى ماتت جوعا ورأيت عمرو بن عامر الخزاعي يجر قصبه في النار وكان أول من سيب السوائب . رواه مسلم . ( متفق عليه )
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا معراج کی رات میں یا اور کسی موقعہ پر حالت خواب یا بیداری ہی میں میرے سامنے دوزخ کی آگ دکھانے کے لئے لائی گئی تو میں نے اس میں بنی اسرائیل کی ایک عورت کو جلتے ہوئے دیکھا جو بنی اسرائیل کی اہل ایمان میں سے تھی اس کو ایک بلی کے معاملہ میں عذاب دیا جا رہا تھا جس کو اس نے باندھ چھوڑا تھا، نہ تو اس کو کچھ کھانے پینے کے لئے دیا کرتی تھی اور نہ اس کو کھولتی ہی تھی کہ وہ چل کر حشرات الارض (یعنی چوہوں وغیرہ ) میں سے کچھ کھا لے، اور آخر کار وہ بلی بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ نیز میں دوزخ میں عمرو بن عام خزاعی کو بھی دیکھا جو اپنی آنتوں کو دوزخ کی آگ میں کھینچ رہا تھا یہ وہ سب سے پہلا شخص تھا جس نے اونٹنی چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔ (مسلم)
تشریح
" سوائب" اصل میں سائبۃ کی جمع ہے اور سائبہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں نذر وغیرہ کے لئے چھوڑی جاتی تھی چنانچہ اہل عرب کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی اونٹنی سارے بچے مادہ ہی مادہ جنتی ، یا کوئی شخص دور دراز کے سفر سے واپس آتا ، اور یا کوئی مریض صحت یاب ہوتا تو وہ اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیتے تھے کہ نہ تو اس پر سوار ہوتے اور نہ اس کا دودھ دوہتے، وہ جہاں چاہتی پھرتی، کوئی شخص اس کو اپنے گھاس پانی وغیرہ سے روکتا نہیں تھا، وہ لوگ اس کام کو ایک عبادت اور اپنے بتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ جانتے تھے ، اس رسم کو سب سے پہلے جس نے جاری کیا وہ عمرو بن عام خزاعی تھا۔ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے بت پوجنے کی رسم نکالی اور بت پرستی کو تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا وہ بھی یہی عمرو بن عامر تھا۔ بعض روایتوں میں یہ نام عمرو بن عامر کے بجائے عمرو بن لحی بیان کیا گیا ہے اور بظاہر یہ دونوں نام ایک ہی شخص کے ہیں عامر تو اس کے باپ کا نام تھا اور لحی اس کے دادا کا نام تھا یا اس کے برعکس تھا کہ باپ کا نام تو لحی اور دادا کا نام عامر تھا چنانچہ کسی روایت میں باپ کی طرف نسب کر کے اور کسی روایت میں دادا کی طرف نسبت کر کے اس کا ذکر کیا گیا ۔
کرمانی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ابھی سے دوزخ میں ڈالے جا چکے ہیں اور وہاں عذاب بھگت رہے ہیں۔ تاہم یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس ارشاد گرامی کا تعلق اس بات سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دوزخ کا وہ احوال منکشف کیا گیا جو قیامت کے دن پیش آئے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی صورت دکھائی گئی کہ قیامت کے دن مذکورہ عورت اور عمرو بن عامر کو دوزخ میں اس طرح ڈالا جائے گا اور ان کو اس طرح عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔