مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان ۔ حدیث 1270

کسی کے اخروی انجام کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا

راوی:

وعن أم العلاء الأنصارية قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم والله لا أدري والله لا أدري وأنا رسول الله ما يفعل بي وبكم . رواه البخاري .

حضرت ام العلاء انصاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ باوجودیکہ میں اللہ کا رسول ہوں لیکن اللہ کی قسم یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ (بخاری)

تشریح
اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص کی عاقبت کا معامہ غیر معلوم ہے کوئی نہیں جانتا کہ کون شخص کیا عمل کرے گا اور اس کا آخری انجام کیا ہوگا؟ تاہم واضح رہے کہ انبیاء اور رسولوں اور خصوصاً سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عاقبت کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ان حضرات کے بارے میں ایسی دلائل قطعیہ منقول ہیں جو واضح طور پر بتاتی ہیں کہ انبیاء خصوصاً حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عاقبت کا بخیر ہونا ایک یقینی امر ہے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کہ میں یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ کو اس مخصوص پس منظر میں رکھ کر دیکھنا چاہئے جس میں یہ حدیث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی اور وہ یہ کہ ایک صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اونچے درجہ کے مہاجر صحابہ میں سے تھے، ان کا مدینہ میں انتقال ہوا اور خاص بات یہ کہ مدینہ میں مہاجرین میں سے سب سے پہلے جن صحابی کا انتقال ہوا ہے وہ یہی تھے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذاتی نگرانی میں ان کی تجہیز وتکفین کا انتظام فرمایا ان کے جنازے کے ساتھ نہایت عزت وتکریم کا معاملہ کیا ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر اپنے سامنے بقیع میں ان کو سپر خاک کرایا، اس موقع پر ایک خاتون، جو وہاں موجود تھیں اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تئیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ محبت وعنایات دیکھ رہی تھیں کہنے لگیں ۔ عثمان تمہیں جنت مبارک ہو کہ تمہاری عاقبت وانجام بخیر ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان خاتون کو سرزنش کی اور مذکورہ حدیث ارشاد فرمائی۔ لہٰذا اس حدیث کا مقصد دراصل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک غیر موزوں بات زبان سے نکالنے کی جرات وگستاخی پر بطریق مبالغہ سرزنش کرنا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ بات اس طرح بھی کہی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا تو ان الفاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد ان کے حقیقی معنی نہیں تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ کے ذریعہ بطور کنایہ یہ فرمایا کہ کسی دوسرے شخص کی عاقبت کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خود میرا معاملہ یہ ہے کہ اگرچہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میری عاقبت کا بخیر ہونا ایک یقینی امر ہے مگر چونکہ عاقبت کا معاملہ علم غیب سے تعلق رکھتا ہے اس لئے میں از راہ ادب اپنی عاقبت کے بارے میں بھی تصریح نہیں کر سکتا ہے اور یہ نہیں بتا سکتا کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔
یا اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ اگرچہ میں اللہ کا رسول ہوں لیکن کسی کی عاقبت اور انجام کار کے بارے میں تفصیل کے ساتھ مجھے بھی کچھ معلوم نہیں ہے کہ کون شخص دنیا میں کس انجام کو پہنچے گا اور آخرت میں کس احوال سے دوچار ہوگا کیونکہ اس طرح کے احوال کا تعلق غیب سے ہے اور غیب کی تفصیلی باتین عالم الغیب (اللہ تعالیٰ) کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ گو اجمالی طور پر اتنا ضرور معلوم ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کی عاقبت بخیر ہے ملاعلی قاری نے اسی احتمال کو صحیح لکھا ہے۔
ایک احتمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ کہ مذکورہ ارشاد سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ میں اس دنیا سے کس طرح رخصت ہوں گا اور میری موت کن حالات میں واقع ہوگی ، آیا اپنی موت سے مروں گا یا کوئی شخص مجھے قتل کر دے گا اسی طرح مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ جس طرح پچھلی امتوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا تھا اس طرح تم پر بھی کوئی ہلاکت خیز عذاب نازل ہو سکتا ہے یا نہیں؟
اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی اس آیت کریمہ (لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْ بِكَ وَمَا تَاَخَّرَ) 48۔ الفتح : 2) کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے ، چنانچہ پہ تو عاقبت کے بارے میں ابہام تھا کہ کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی تھی۔ مگر اس آیت کے نازل ہونے کے بعد یہ ابہام دور ہو گیا اور یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عاقبت بخیر ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں