مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان ۔ حدیث 1269

زیادہ ہنسنا آخرت کی ہولنا کیوں سے بے فکر کی علامت ہے

راوی:

عن أبي هريرة قال قال أبو القاسم صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لو تعلمون ما أعلم لبكيتم كثيرا ولضحكتم قليلا . رواه البخاري .

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ابوالقاسم (محمد) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم اس چیز کو جان لو جس کو میں جانتا ہوں تو یقینا تمہارا رونا زیادہ اور ہنسنا کم ہو جائے (یعنی قیامت کے احوال اور اس کی ہولناکیاں ، مبدأ و معاد کی حقیقت گنہگاروں کے تئیں اللہ تعالیٰ کا عتاب وعذاب یوم حساب کی شدت پرسش اور باری تعالیٰ کی صفات قہریہ وجلالیہ کو، جو خوف مصیبت کا باعث ہیں جس قدر میں جانتا ہوں اور پھر ان چیزوں کے تعلق سے تمہارے انجام کار کے بارے میں جو کچھ مجھے معلوم ہے اور جس کی وجہ سے میرے دل پر ہر وقت غم وخوف طاری رہتا ہے اگر تم بھی ان سب چیزوں سے پوری طرح آگاہ ہو جاؤ تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خوف وہیبت کے مارے تم ہنسنا بھول جاؤ اور اپنا زیادہ وقت رونے اور غم کھانے میں صرف کرو، کیونکہ اس صورت میں تم رجا یعنی رحمت الٰہی کی امید کے مقابلہ پر عذاب الٰہی کے خوف کو زیادہ ترجیح دینے لگو)۔ (بخاری)

تشریح
اس ارشاد گرامی میں امت کے لئے ایک تنبیہ تو یہ ہے کہ اپنے اوپر گریہ طاری رکھنا چاہئے اور ان چیزوں کی یاد تازہ رکھنی چاہئے جو رونے وہلانے اور غم کھانے کا باعث ہوتی ہیں جیسے خوف الٰہی کا احساس اور عظمت وجلال حق کی حقیقت معلوم کرنا۔ دوسری تنبیہ یہ ہے کہ جاہل و غافل لوگوں کی طرح بہت زیادہ ہنسنے اور راحت چین اختیار کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف عفو مغفرت اور اس کی رحمت پر امید کی وجہ سے فی الجملہ راحت چین اختیار کرنا ایک حد تک گنجائش رکھتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں