سمعہ کی مذمت
راوی:
عن أبي تميمة قال شهدت صفوان وأصحابه وجندب يوصيهم فقالوا هل سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا ؟ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سمع إن أول ما ينتن من الانسان بطنه فمن استطاع أن لا يأكل إلا طيبا فليفعل ومن استطاع أن لا يحول بينه وبين الجنة ملء كف من دم اهراقه فليفعل . رواه البخاري .
حضرت ابوتمیمہ تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں کی مجلس میں اس وقت حاضر ہوا کہ جب مشہور اور جلیل القدر صحابی حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ بن سفیان بجلی حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں کو ریاضت ومجاہدہ کی راہ مستقیم اختیار کرنے یا کثرت کے ساتھ عبادت کرنے یا طاعت میں میانہ روی اختیار کرنے اور یا سمعہ و ریا اور حصول شہرت کی طلب وخواہش سے احتراز واجتناب کرنے کی نصیحت فرما رہے تھے۔ پھر حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ (یعنی اگر آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث سنی ہے تو اس کو ہمارے سامبے بیان فرمائیے اور ہمیں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیجئے۔
حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ۔ جو شخص سنائے گا (یعنی لوگوں کے سنانے اور شہرت حاصل کرنے کے لئے جو کوئی نیک کام کرے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو رسوا کرے گا۔ اور جو شخص مشقت میں ڈالے گا (یعنی اپنی ہمت وطاقت سے بڑھ کر کوئی کام کرنے کی صورت میں اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرے گا یا کسی دوسرے شخص مثلا اپنے خادم یا نوکر چاکر وغیرہ کو کسی ایسے کام پر مامور کر کے، کہ جو اس کی ہمت وطاقت سے باہر ہو، ناقابل برداشت محنت ومشقت کی اذیت میں مبتلا کرے گا)۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن مشقت میں ڈالے گا۔ یہ سن کر انہوں نے (یعنی صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یا حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں نے حضرت جندب سے کہا ) کہ ہمیں کچھ اور نصیحت فرمائیے تو (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یا حضرت جندب نے) فرمایا۔ انسان کی جو چیز سب سے پہلے گندی اور خراب ہوتی ہے وہ اس کا پیٹ ہے (یعنی جو چیز انسان کو سب سے پہلے زیادہ برائی میں مبتلا کرتی ہے سب سے پہلے دوزخ کی آگ کا مستوجب بناتی ہے اور آخرت میں سب سے پہلے دوزخ میں جانے اور عذاب بھگتنے کا باعث بنے گی وہ اس کا پیت ہے پس جو شخص اس کی قدرت رکھتا ہو کہ اس چیز کے علاوہ اور کچھ اپنے پیٹ میں نہ پہچنائے جو حلال وجائز ہے تو بے شک اس کو ایسا ہی کرنا چاہئے اور جو شخص اس کی قدرت رکھتا ہو کہ اس کے اور جنت کے درمیان ناحق بہایا جانے والا ایک چلو خون حائل ہو تو بے شک اس کو ایسا ہی کرنا چاہئے کہ کسی کا ایک چلو بھی ناحق خون بہانے سے احتراز کرے۔ (بخاری)
تشریح
حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ ناحق خونریزی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا زیادہ ہونا تو کجا اگر ایک چلو کے بقدر بھی ہو تو جنت میں جانے سے روکنے والی ہے پس یہ بات عقل دانائی سے بعید تر ہے، یکہ ایسے برے اور قابل نفرین فعل کا ارتکاب کیا جائے جو انسانیت کے منافی نہیں ہے بلکہ جنت میں داخل ہونے جیسی عظیم و اہم سعادت سے محروم رکھنے والا بھی ہے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ " حضرت صفوان" سے مراد صفوان بن سلیم زہری ہیں جو مدینہ کے ایک نہایت جلیل القدر تابعی تھے اور جن کی شخصیت، علم ومعرفت ، کردار وعمل ، زہد و تقوی اور عبادت و ریاضت کا ایک مثالی نمونہ تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے چالیس برس تک اپنا پہلو زمین سے نہیں لگایا اور عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ سجدوں کی کثرت سے ان کی پیشانی میں سوراخ ہو گیا تھا، ان کے حالات میں یہ لکھا ہے کہ وہ امراء وسلاطین کا کوئی بھی انعام و اکرام قبول نہیں کرتے تھے۔ غرضیکہ ان کے بہت زیادہ فضائل ومناقب بیان کئے جاتے ہیں۔