کسی عمل خیر کی وجہ سے خود بخود مشہور ہو جانا ریا نہیں ہے
راوی:
وعن أبي ذر قال قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم أرأيت الرجل يعمل الخير ويحمده الناس عليه . وفي رواية يحبه الناس عليه قال تلك عاجل بشرى المؤمن . رواه مسلم .
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ مجھے اس شخص کے بارے میں بتائیے جو کوئی نیک کام کرتا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ اس کی تعریف وتوصیف کرتے ہیں۔ اور ایک روایت میں لوگ اس کی تعریف وتوصیف کرتے ہیں کے بعد یہ بھی ہے، کہ اور وہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں (ایسے شخص کا کیا حکم ہے اس کا اجر و ثواب کالعدم ہو جاتا ہے یا نہیں؟) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سوال سن کر فرمایا کہ لوگوں کا اس شخص کی تعریف وتوصیف کرنا اور اس کو محبوب رکھنا درحقیقت اس کے حق میں مومن کے ذریعہ جلد ملنے والی بشارت ہے۔ (مسلم)
تشریح
" جلد ملنے والی بشارت" کا مطلب یہ ہے کہ ایک سعادت وبشارت تو وہ ہے جو باقی ہے اور آخرت میں ملے گی اور ایک سعادت وبشارت یہ ہے کہ جو جلد ہی یعنی اسی دنیا میں مل گئی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے اس عمل خیر کا اصل ثواب آخرت میں پانے سے پہلے ایک اور اجر و ثواب اسی دنیا میں یہ پا لیا کہ لوگوں نے اس کی تعریف وتوصیف کی اور اس کو اپنا محبوب قلب ونظر بنا لیا اور اس کے حق میں لوگوں کو یہ معاملہ گویا اس بات کی بشارت ہے کہ اس کا وہ عمل خیر مقبول ہو گیا اور وہ آخرت میں اجر وثواب پائے گا۔
بہرحال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعہ یہ واضح فرمایا کہ اس شخص کا وہ عمل خیر کہ جس کی وجہ سے وہ دنیا والوں کی نظر میں قابل احترام اور محبوب بنا ہے " ریاء" نہیں کہلائے گا کیونکہ اس کو اس عزت واحترام اور محبت کے حاصل ہونے میں اس کے اپنے قصد و ارادہ کو کوئی دخل نہیں ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس عمل خیر کو اختیار کرنے میں اس کی نیت اور اس کا قصد و ارادہ ، اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی اور ثواب آخرت کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، یہ تو محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس شخص کو اس دنیا میں بھی مذکورہ سعادت کی صورت میں اجر و ثواب عطا فرما دیا۔