غیر مخلصانہ عمل کی کوئی اہمیت نہیں
راوی:
وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الله تعالى أنا أغنى الشركاء عن الشرك من عمل عملا أشرك فيه معي غيري تركته وشركه وفي رواية فأنا منه بريء هو للذي عمله . رواه مسلم . ( متفق عليه )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں شرک کے تئیں تمام شرکاء سے نہایت زیادہ بے نیاز ہوں، یعنی دنیا کا دستور ہے کہ لوگ اپنے معاملات اور کاروبار میں ایک دوسرے کے اشتراک وتعاون کے محتاج ہوتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے شریک بنتے ہیں، نیز وہ اس شرکت وتعاون پر راضی ومطمئن بھی ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے درمیان اس درجہ کی مفاہمت ہوتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک شریک متعلقہ معاملات و کاروبار میں اپنا پورا عمل دخل رکھتا ہے، لیکن میرا معاملہ بالکل جداگانہ ہے کہ میں علی الاطلاق خالق وحاکم ہوں اپنے احکام وفیصلے اور اپنے نظام قدرت میں نہ تو مجھے کسی کے تعاون واشتراک کی حاجت وضرورت ہے اور نہ مجھے یہ گوارا ہے کہ میرے بندے کسی کو میرا شریک قرار دیں، اور میرے لئے کئے جانے والے کسی بھی عمل میں میرے علاوہ کسی اور کو مدنظر رکھیں۔ یہاں تک کہ میرے نزدیک ان کے صرف اسی عمل کا اعتبار ہے جو وہ خالص طور پر میرے لئے کریں۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا ذکر شرکاء کے ضمن میں کرنا یعنی اللہ اپنے کو ایک شریک کے ذریعہ تعبیر کرنا محض ان بندوں کے اعتبار سے ہے جو اپنے جہل اور اپنی نادانی کی وجہ سے اس کی ذات وصفات اور اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرتے اور اس طرح وہ اللہ کو بھی ایک " شریک" کا درجہ دیتے ہیں نعوذ باللہ اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اس بات سے اپنی بے نیازی اور ناخوشی کا اعلان فرمایا کہ کسی کو اس کا شریک قرار دیا جائے، چنانچہ ارشاد ہوا کہ جو شخص میری طاعت وعبادت کے طور پر کوئی ایسا عمل کرے کہ جس میں وہ میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کرے تو میں اس شخص کو شرک کے ساتھ ٹھکرا دیتا ہوں۔ اور ایک روایت میں ترکتہ وشرکہ کے بجائے یہ الفاظ ہیں فانا منہ بری ہو للذی عملہ یعنی جو شخص میری عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرتا ہے تو میں اس سے اپنی بے نیازی وبیزاری ظاہر کرتا ہوں، وہ شخص یا اس کا وہ عمل اسی کے لئے ہے جس کے لئے اس نے وہ عمل کیا ہے۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث کا ظاہری مفہوم اس بات کو واضح کرتا ہے کہ خالص ریاء کاری کے جذبہ سے کیا جانے والا عمل تو باطل ہو ہی جاتا ہے لیکن اس عمل کا بھی کوئی فوت ہو جاتا ہے جس میں ریاء کی آمیزش اور اس کا دخل ہو جائے۔ لیکن علماء نے کہا ہے کہ یہ حکم اس عمل کے بارے میں ہوگا جو ریاء کی ان دو قسموں سے تعلق رکھے کہ یا تو اس عمل کو اختیار کرنے میں سرے سے ثواب کی نیت ہی نہ ہو یا ثواب کی نیت تو ہو مگر ریاء کا قصد اس نیت پر غالب ہو اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس حدیث کا اصل مقصد اللہ کے لئے کئے جانے والے کسی بھی عمل کو ریا کی آمیزش اور اس کے دخل سے پاک رکھنے کو بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کرنا اور اس کے امر سے لاپرواہی اختیار کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ تنبیہ وسرزنش کرنا ہے۔