ریاء کی قسمیں
راوی:
ریاء کی مختلف اقسام اور صورتیں ہیں اور ان اقسام میں سب سے زیادہ بری اور نہایت قابل نفریں وہ قسم ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قصد اور حصول ثواب کا ارادہ قطعا نہ ہو بلکہ واحد مقصد لوگوں کو دکھانا اور ان کی نظر میں قدر و منزلت حاصل کرنا، جیسا کہ خالص ریاء کار بلکہ دھوکا باز لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ جب وہ لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں تو نماز پڑھتے ہیں اور مختلف قسم کے اوراد و وظائف میں مشغول رہتے ہیں، لیکن جب تنہا ہوتے ہیں تو نہ نماز سے سروکار رکھتے ہیں اور نہ اوراد وظائف سے بلکہ ان بدنصیبوں کی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ نماز میں بغیر پاکی اور وضو کے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں ریاء کاری کی یہ قسم ارذل ترین اور اللہ تعالیٰ کے سخت غضب وقہر کے نازل ہونے کا باعث ہے اور اس صورت میں کیا جانے والا کوئی بھی عمل قطعی باطل ہوتا ہے ، بلکہ بعض حضرات نے تو یہاں تک کہا ہے اگر وہ عمل فرض ہو تو اس کا کرنا فرض کے ادا ہو جانے کے حکم میں نہیں ہوگا بلکہ اس کی قضا واجب ہوگی دوسری قسم وہ صورت ہے جس میں کسی نیک عمل کرنے میں دونوں چیزیں ہوں یعنی ارادہ ثواب بھی اور ریاء کاری بھی (دکھانے کی نیت)) لیکن ریا کا پہلو غالب ہو اور ارادہ ثواب کا پہلو ضعیف ہو، بایں حیثیت کہ اگر اس عمل کو کرنے والا تنہائی میں ہوتا تو اس عمل کو نہ کرتا، اور اس کا قصد اس عمل کے صدور کا باعث نہ ہوتا اور اگر بالفرض اس عمل کا ثواب کوئی نہ ہوتا تو بھی محض ریاء کاری کا جذبہ ہی اس عمل کو اختیار کرنے کا باعث بن جاتا، اس قسم کا بھی وہی حکم ہے جو پہلی قسم کا ہے۔ تیسری قسم وہ صورت ہے جس میں کسی نیک عمل کو اختیار کرنے میں دونوں چیزیں یعنی ریاء کاری کا جذبہ اور حصول ثواب کا ارادہ برابر ہوں، بایں حیثیت کہ اگر بالفرض وہ عمل ان دونوں چیزوں میں سے بھی ایک چیز سے خالی ہوتا تو اس کو اختیار کرنے کا کوئی داعیہ پیدا نہ ہوتا بلکہ اس عمل کی طرف رغبت اسی صورت میں ہوتی جب کہ دونوں چیزیں ایک ساتھ پائی جاتی۔ اس قسم کے بارے میں بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نفع، نقصان، دونوں برابر ہوں، لیکن احادیث و آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قسم بھی مذموم، اور اس صورت میں کیا جانے والا عمل بھی ناقابل قبول ہوتا ہے، اور چوتھی قسم وہ صورت ہے کہ جس میں کسی نیک عمل کو اختیار کرنے میں ، ثواب کی نیت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ارادہ، راجح اور غالب ہو، اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قسم نہ تو محض باطل ہے اور نہ اس میں کوئی نقصان ہے، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے۔ کہ اس صورت میں اختیار کیا جانے والا عمل نیت و ارادہ کے اعتبار سے ثواب اور عتاب دونوں کا یکساں طور پر باعث ہوتا ہے کہ ارادہ و نیت میں جس قدر اخلاص یا عدم اخلاص ہوگا اسی کے مطابق ثواب یا عتاب ہوگا، نیز اس صورت میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ قصد عمل میں ریاء کاری کی جو آمیزش ہے (جو اگرچہ ثواب کے ارادہ ونیت سے کمتر اور ضعیف ہے) وہ کب پیدا ہوئی ہے؟ اگر ریاء کاری کی آمیزش ابتداء عمل میں ہوئی ہے تو یہ صورت زیادہ بری کہلائے گی ، اور اگر عمل کے درمیان پیدا ہوئی ہے تو یہ صورت پہلی صورت سے کم برائی کی حامل ہو گی، اور اگر یہ عمل کرنے کے بعد آئی ہے تو یہ صورت دوسرے صورت سے بھی کم تر قرار دی جائے گی اور اس کی وجہ سے اختیار کیا جانے والا عمل باطل نہیں کہلائے گا۔
علاوہ ازیں ایک فرق یہ بھی ملحوظ رکھا جائے گا کہ ریاء کاری کا وہ جذبہ اگر پختہ قصد و عزم کی صورت میں نمودار ہوا ہے تو اس میں زیادہ برائی ہوگی اور اگر محض ایک خیال کی صورت میں پیدا ہو اور اس خیال ہی کی حد تک محدود رہا، آگے کچھ نہ ہوا تو یہ صورت حال یقینا زیادہ نقصان دہ نہیں کہلائے گی۔
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ " ریاء " ایک ایسا جذبہ ہے جس سے پوری طرح خلاصی نہایت دشوار ہے اور ہر حالت میں حقیقی اخلاص کا پایا جانا بہت مشکل، اسی لئے علماء نے یہاں تک لکھا ہے کہ کسی کے منہ سے اپنی تعریف سن کر خوش ہونا ریاء کے پائے جانے کی علامت ہے، اسی طرح تنہائی میں کوئی عمل کرتے وقت بھی دل میں ریاء کا خیال آ جائے تو وہ بھی ریاء ہی کہلائے گا۔ اللہ اس سے اپنی پناہ میں رکھے اور بہر صورت اخلاص عطا فرمائے کہ اس کی مدد و توفیق کے بغیر اس دولت کا ملنا ممکن ہی نہیں ہے۔
علماء نے ایک خاص صورت وحالت اور بیان کی ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص کوئی نیک کام کرے اور کسی عبادت وطاعت میں مصروف ہو اور لوگ اس کو وہ نیک کام اور عبادت وطاعت کرتا ہوا دیکھ لیں تو اس کو چاہئے کہ اس وقت اپنے اندر اس وقت اس بات پر خوشی ومسرت کے جذبات پیدا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم اور لطف وعنایت سے نیک عمل کی توفیق عطا فرمائی اور لوگوں کی نظر باعزت بنانے کا یہ سبب پیدا فرمایا کہ گناہوں اور عیوب کی تو پردہ پوشی فرمائی اور نیک اعمال واخلاق کو آشکارا فرمایا اور ان جذبات مسرت کے ساتھ یہ نیت وقصد رکھے کہ اگر میرے نیک عمل کے اظہار سے دین وطاعات کا چرچہ ہوتا ہے تو لوگ دین کی طرف راغب ہوں گے اور ان کے اندر بھی نیک اعمال کو اختیار کرنے کا داعیہ پیدا ہوگا۔ یہ چیز نہ صرف یہ کہ " ریاء " کے حکم میں داخل نہیں ہوگی، بلکہ اس کو محمود ومستحسن بھی کہا جائے گا جیسا کہ اس سلسلے میں وارد احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ مسئلہ بہت دقیق وپیچیدہ ہے اور اپنے اندر بہت تفصیل ومباحث رکھتا ہے ، اگر اس کی تحقیق زیادہ وضاحت کے ساتھ جاننی ہو تو اہل اللہ اور عارفین کی کتابوں اور ان کے اقوال وملفوظات سے راہنمائی حاصل کرنی چاہئے ، خصوصا مشہور کتاب احیاء العلوم اس سلسلے میں زیادہ بہتر رہبری کر سکتی ہے۔