نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لا مثال صبر
راوی:
وعن ابن مسعود قال كأني أنظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يحكي نبيا من الأنبياء ضربه قومه فأدموه وهو يمسح الدم عن وجهه ويقول اللهم اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون . متفق عليه .
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ گویا میں اس وقت بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ ایک ایسے نبی کا قصہ بیان فرما رہے ہیں اور اس کی صورت ہمیں بتا رہے ہیں جن کو ان کی قوم نے مارا وہ لہولہان کر دیا لیکن وہ نبی بجائے اس کے کہ اپنی قوم کے تئیں بغض ونفرت میں مبتلا ہوتے، اور ان کے حق میں بد دعا کرتے، بلکہ صبر و تحمل کا دامن پکڑے ہوئے اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے اے اللہ میری قوم کو بخش دے یہ لوگ میری حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
" گویا یا میں اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں" کے ذریعہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ واضح فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذکورہ قصہ بیان فرمانا مجھے اچھی طرح یاد ہے اور اس وقت بھی اس وقت کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔
" میری قوم کو بخش دے" یعنی ان لوگوں سے اس معنی میں درگزر فرمایا کہ انہوں نے میرے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور جو تکلیف پہنچائی ہے اس کی وجہ سے ان کو اس دنیا میں کسی عذاب میں مبتلا نہ کرنا اور ان کا نام ونشان نہ مٹا۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ کفار کی بخشش ومغفرت کی دعا اس معنی میں ہرگز جائز نہیں ہے کہ ان کا شرک وکفر معاف ہو جائے اور اگر وہ اپنے کفر وشرک کے ساتھ مر جائیں تو عذاب آخرت میں مبتلا نہ ہوں۔
" یہ لوگ میری حقیقت سے واقف نہیں ہیں" یہ الفاظ گویا ان نبی علیہ السلام کے کمال صبر و حلم اور حسن اخلاق کردار کا مظہر ہیں کہ جو لوگ ، ان کو سخت ترین تکلیف پہنچا رہے ہیں، جنہوں نے ان کو لہولہان کر رکھا ہے، اور جو لوگ اپنے نبی کو اذیت پہنچا کر سب سے بڑا گناہ کر رہے ہیں، انہی لوگوں کی طرف سے وہ نبی اللہ کی بارگاہ میں یہ عذر بیان فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں نے جو کچھ بھی کیا ہے محض اس وجہ سے کیا ہے کہ اللہ و رسول کے بارے میں ان کے دل و دماغ پر جہل کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جہل ونادانی کی وجہ سے کیا جانے والا گناہ اس گناہ کی بہ نسبت ہلکا ہوتا ہے جو علم و دانائی کے باوجود صادر ہو، اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ ویل للجاہل مرۃ وویل للعالم سبع مرات جاہل کے لئے ایک رسوائی وخرابی ہے اور عالم کے لئے سات رسوائیاں وخرابیاں ہیں۔
شیخ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں یہ نہیں بتا سکتا کہ حدیث میں جن نبی علیہ السلام کا ذکر ہے وہ کون سے نبی تھے اور ان کے ساتھ کیا قصہ پیش آیا تھا۔ لیکن بعض رویات میں آتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم کا یہ سلوک تھا کہ جب وہ ان لوگوں کو راہ ہدایت کی طرف بلاتے اور اللہ کے حکم کی اتباع کی تلقین کرتے تو بدنصیب ان کو مارنے لگتے اور اس قدر مارتے کہ ان کا جسم لہولہان ہو جاتا ، زخموں سے چور ہو کر زمین پر گر پڑتے اور اسی حالت میں عرصہ تک زمین پر پڑے رہتے ، پھر جب کچھ توانائی آتی تو اٹھ کھڑے ہوتے اور فریضہ دعوت کی انجام دہی میں مشغول ہو جاتے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ان نبی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات مبارک تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے واقعہ کو اجمال وابہام کے طور پر بیان فرمایا۔ یہ قول زیادہ صحیح ہے اور جنگ احد کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخالفین کے حق میں جو دعا فرمائی اس کے یہی الفاظ منقول ہیں۔