مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کسب اور طلب حلال کا بیان ۔ حدیث 1232

اللہ پر کامل اعتماد کا اثر

راوی:

عن جابر أنه غزا مع النبي صلى الله عليه وسلم قبل نجد فلما قفل معه فأدركتهم القائلة في واد كثير العضاه فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم وتفرق الناس يستظلون بالشجر فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت سمرة فعلق بها سيفه ونمنا نومة فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعونا وإذا عنده أعرابي فقال إن هذا اخترط علي سيفي وأنا نائم فاستيقظت وهو في يده صلتا . قال ما يمنعك مني ؟ فقلت الله ثلاثا ولم يعاقبه وجلس . متفق عليه .
وفي رواية
أبي بكر الإسماعيلي في صحيحه فقال من يمنعك مني ؟ قال الله فسقط السيف من يده فأخذ السيف فقال من يمنعك مني ؟ فقال كن خير آخذ . فقال تشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله . قال لا ولكني أعاهدك على أن لا أقاتلك ولا أكون مع قوم يقاتلونك فخلى سبيله فأتى أصحابه فقال جئتكم من عند خير الناس . هكذا في كتاب الحميدي والرياض .
وعن

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس جہاد میں شریک تھے جو نجد کی اطراف میں ہوا تھا اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد سے فارغ ہوئے اور واپس ہوئے تو جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی واپس ہوئے اسی سفر کے دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک دن صحابہ رضی اللہ عنہم دوپہر کے وقت ایک ایسے جنگل میں پہنچے جس میں کیکر کے درخت زیادہ تھے ، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کے ساتھ وہیں اتر پڑے اور تمام لوگ درختوں کے سایہ کی تلاش میں ادھر ادھر پھیل گئے ( یعنی ہر شخص ایک درخت کے نیچے چلا گیا اور اس کے سایہ میں کچھ دیر استراحت کی خاطر لیٹ گیا) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کیکر کے ایک بڑے درخت کے نیچے فروکش ہو گئے اور اپنی تلوار کو اس درخت کی ٹہنی میں لٹکا دیا (حضرت جابر کہتے ہیں) کہ ہم لوگ تھوڑی سی نیند لینے کی خاطر سو چکے تھے کہ اچانک ہم نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں آواز دے رہے ہیں چنانچہ ہم لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیٹے ہوئے ہیں اور وہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی کافر موجود ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے جمع ہونے پر فرمایا کہ یہ دیہاتی اس وقت جب کہ میں سو رہا تھا مجھ پر میری تلوار سونت کر کھڑا ہو گیا ، اور جب میری آنکھ کھل گئی تو میں نے دیکھا کہ میری ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں ہے، اس نے مجھ سے کہا کہ اب تمہیں کون مجھ سے بچائے گا؟ میں نے فورا جواب دیا کہ میرا اللہ مجھے بچائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ کہی اور اس دیہاتی کو کوئی سزا نہیں دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے۔ (بخاری ومسلم) اور اس روایت میں کہ جس کو ابوبکر اسماعیلی نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے یہ الفاظ ہیں کہ اس دیہاتی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تلوار سونت کر کہا کہ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ بچائے گا۔ یہ سنتے ہی دیہاتی کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلوار کو اٹھا لیا اور فرمایا کہ اگر میں تمہیں قتل کرنا چاہوں تو بتاؤ کہ اب تمہیں کون مجھ سے بچائے گا؟ دیہاتی نے جواب دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو بھلائی کے ساتھ گرفت کرنے والے ہیں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان سے تو مجھے یہ امید ہے کہ میرے لئے انتقامی کاروائی نہیں کی جائے گی اور آپ از راہ لطف وکرم مجھے معاف کر دیں گے) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلاشبہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے یہ فرمایا کہ اگر تمہیں میرے اوپر اتنا زیادہ اعتماد ہے تو پھر یقینا یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتے ہو گے کہ میری دعوت اسلام بالکل برحق اور مبنی برصداق ہے، اس صورت میں تو تمہیں چاہئے کہ کلمہ پڑھ لو اور مسلمان ہو جاؤ (دیہاتی نے کہا کہ مسلمان تو نہیں ہو سکتا البتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ عہد ضرور کرتا ہوں کہ نہ میں خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لڑوں گا اور نہ ان لوگوں کا ساتھ دوں گا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لڑیں گے۔ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دیہاتی کو چھوڑ دیا اور جب وہ دیہاتی اپنی قوم میں آیا تو کہنے لگا کہ میں تمہارے درمیان ایک ایسے شخص کے پاس سے آ رہا ہوں جو سب سے بہتر انسان ہے۔ بخاروی ومسلم کی مذکورہ بالا روایت انہی الفاظ کے اضافہ کے ساتھ کتاب حمیدی اور امام محی الدین ہوری کی تصنیف ریاض الصالحین میں بھی منقول ہے۔

تشریح
نجد لغت میں تو زمین کے اس حصہ کو کہتے ہیں جو عام سطح سے بلند ہو، اور ویسے یہ جزیرۃ العرب کے ایک خاص علاقے کا نام ہے اور چونکہ یہ علاقہ ایک سطح مرتفع ہے اس لئے اس کو نجد کا نام دیا گیا ہے زمانہ قدیم میں نجد ایک بہت مختصر علاقہ پر مشتمل تھا مگر موجودہ جغرافیہ میں جزیرۃ العرب کے سارے وسطی علاقہ کو نجد کہا جاتا ہے، جس کا انتہائی طول تقریبا آٹھ سو میل اور انتہائی عرض تقریبا سو دو سو میل ہے، یہ شمال میں بادیۃ الشام کے جنوبی سرے سے شروع ہو کر جنت میں وادی الدوارس یا الربع انحالی تک اور عرضا " احساء" سے حجاز تک پھیلا ہوا ہے۔
" عضاہ" اصل میں " عضہ" کی جعم ہے اور جس کا اطلاق ہر اس درخت پر ہوتا ہے جو کانٹے دار ہو ، اور مجمع البحار میں لکھا ہے کہ " عضاہ" کیکر کے درخت کو کہتے ہیں اور جو درخت عضاہ سے بڑا ہو اس کو سمرہ کہا جاتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں