مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کسب اور طلب حلال کا بیان ۔ حدیث 1231

انسان کی نیک بختی اور بدبختی

راوی:

وعن سعد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من سعادة ابن آدم رضاه بما قضى الله له ومن شقاوة ابن آدم تركه استخارة الله ومن شقاوة ابن آدم سخطه بما قضى الله له . رواه أحمد والترمذي وقال هذا حديث غريب .

حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ابن آدم (انسان) کی یک بختی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں جو کچھ لکھ دیا ہے وہ اس پر راضی رہے اور ابن آدم کی بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی کو مانگنا چھوڑ دے، نیز ابن آدم کی بدبختی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اس سے ناخوش وناراض ہو۔ اس روایت کو احمدوترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی شقاوت وبھلائی اور اس کی نیک بختی کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی مانگے اس کے آگے دس سوال دراز کرے اور اس کی بارگاہ کبریائی میں اپنی عرض ومناجات پیش کرے اور پھر اپنی تقدیر وقسمت پر بہر صورت راضی رہے اور یہ یقین رکھے کہ میرے ساتھ جو کچھ بھی پیش آیا ہے، یا جو کچھ بھی پیش آنے والا ہے وہ سب اللہ کے حکم وفیصلہ کے مطابق ہے جو اس نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے اور جو ہر اعتبار سے میرے لئے بہتر ہے۔ اگرچہ اللہ سے خیر و بھلائی مانگنے کی بات انسان کی نیک بختی کے ضمن میں نقل نہیں کی گئی ہے۔ لیکن بعد کی عبارت کو کہ جس میں انسان کی بد بختی کا ذکر کیا گیا ہے مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ مراد یہی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی مانگنے سے اجتناب کرنے سے انسان کی بدبختی قرر دینا اس امر کو واضح کرتا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ ہر لمحہ اپنی بھلائی اور اپنی بہتری کے لئے اللہ کی طرف متوجہ اور اس سے ہمیشہ خیر کا طلبگار رہے۔
نیز جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ابن آدم کو چاہئے کہ وہ ہر صورت میں قضا وقدر الٰہی پر راضی رہے۔ تو اس سے یہ وہم پیدا ہو سکتا ہے کہ گناہ کے علاوہ اور خلاف شریعت امور کا ارتکاب ہو جانے کی صورت میں بھی اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر اس پر راضی ومطمئن ہو جانا چاہئے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرمایا کہ انسان کو چاہئے کہ وہ ہر لمحہ اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی ہی کا طالب رہے تاکہ وہ پاک ذات اس کو صرف خیر بھلائی کی راہ پر لے جائے اور اس کو صرف پسندیدہ امور اختیار کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے ، اور برائی کی رہ اور خلاف شریعت امور سے اس کی حفاظت کرتا رہے۔
واضح رہے کہ ہر صورت میں اور ہر حالت میں قضا وقدر الٰہی پر راضی ہونا بہت بڑی بات ہے اور اس مقام کا نام " " یعنی مرتبہ عظمی ہے۔
یہ بات بتا دینا بھی ضروری ہے کہ قضا وقدر الٰہی پر راضی ہونے کو، کہ وہ اپنی تقدیر وقسمت کے خلاف ناراضگی وغضب ناکی کو ترک کرتا ہے ، انسان کی سعادت ونیک بختی قرار دینا دو چیزوں کی وجہ سے ہے، ایک تو یہ کہ جو شخص قضائے الٰہی پر راضی رہتا ہے ، اس کو سکون قلب، ذہنی فراغت واطمینان اور خاطر جمعی کی دولت نصیب ہو جاتی ہے اور یہ چیز ایسی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان اپنے معاملات وکاروبار اور خاص طور پر حق تعالیٰ کی اطاعت وعبادت میں نہایت سکون واطمینان کے ساتھ مشغول رہتا ہے ، چنانچہ جو شخص تقدیر پر اعتقاد نہیں رکھتا یا قسمت کے لکھے پر رضی نہیں ہوتا وہ ذرا ذرا سی مصیبت اور حادثات پر متفکر اور پراگندہ خاطر رہتا ہے اور یہ ادھیڑ بن اس کو اپنے مقاصد ومعاملات اور طاعات وعبادات میں دل ودماغ کے سکون واطمینان سے محروم رکھتی ہے کہ یہ مصیبت کیوں آ گئی ، فلاں حادثہ کیسے رونما ہوگیا اور یہ بات اس طرح کیوں نہ ہو گئی؟
دوسرے یہ کہ یہ چیز بندہ کو اس سبب سے اللہ تعالیٰ کے غضب وغصہ سے بچاتی ہے کہ وہ اللہ کی لکھی تقدیر کے خلاف اپنی ناراضگی اور اپنے غصہ کا اظہار نہیں کرتا۔ اور تقدیر کے خلاف انسان کی ناراضگی وغصہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا ذکر کرے اور اس چیز کو اپنے حق میں بہتر قرار دے دے، جس کو اللہ نے اس کے مقدر میں نہیں لکھا ہے اور ظاہر ہے کہ جو چیز اللہ نے اس کے مقدر میں لکھ دی ہے وہ یقینی طور پر اس چیز سے بہتر اور اولیٰ ہے جس کا اچھا اور برا ہونا سرے یقینی ہی نہیں ہے۔
استخارہ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے تمام معاملات اور تمام امور میں اللہ تعالیٰ سے بہتری اور اچھائی طلب کی جائے بلکہ یہ یقین و اعتقاد رکھے کہ یہ انسان یہ جانتا ہی نہیں کہ اس کے حق میں کونسی چیز اچھی ہے اور کون سی چیز بری، یہ صرف اللہ ہے جو اپنے بندوں کے حق میں اچھی اور بری چیز کو جانتا ہے، چنانچہ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ انسان کسی چیز کو اپنے حق میں بہتر جانتا ہے مگر حقیقت میں وہ چیز اس کے حق میں بری ہوتی ہے، یا کسی کی چیز کو اپنے لئے برا سمجھتا ہے مگر حقیقت میں وہ چیز اس کے حق میں اچھی ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے
ا یت ( عسی ان تکر ہوا شیأ وہو خیرلکم وعسیٰ ان تحبوا شیأا وہو شرلکم و اللہ یعلم وانتم لا تعلمون)
یہ بالکل بعید نہیں ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے حق میں بری سمجھو مگر حقیقت میں وہ تمہارے لئے اچھی ہو اور یہ بھی بعید نہیں ہے کہ کسی چیز کو تم اپنے حق میں اچھی سمجھو مگر حقیقت میں وہ تمہارے لئے بری ہو، یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے کہ تمہارے حق میں کونسی چیز اچھی ہے اور کونسی بری؟
جب یہ یقین واعتقاد پختہ ہو جائے تو پھر اس یقین واعتقاد کے ذریعہ آگے کا درجہ اختیار کرے کہ اس دنیا میں اور ہماری زندگی میں جو کچھ بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ سب اللہ کی طرف سے اور اس کے حکم وفیصلہ کے مطابق ہے اور جو بھی چیز اللہ کے حکم وفیصلہ کے مطابق ہوتی ہے وہ حقیقت اور انجام کے اعتبار سے خیر و بھلائی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی اس لئے وارد ہوا ہے کہ الخ۔ یر بیدیک والشر لیس الیک، اے رب خیر وبھلائی تیرے ہاتھ میں ہے اور برائی تیری طرف سے منسوب نہیں کی جا سکتی
اور پھر یہ مستحب ہے کہ اگر کوئی اہم دینی یا دنیوی معاملہ درپیش ہو تو اس کے متعلق ذی علم اصحاب رائے اور مخلصین سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد استخارہ کیا جائے یعنی کا رساز حقیقی اللہ تعالیٰ کی طرف حضور قلب کے ساتھ متوجہ ہو کر خیر وبھلائی کی دعا مانگی جائے، استخارہ میں کم سے کم یہ چیز ہے کہ یوں دعا مانگی جائے۔ اللہم خر لی واختر لی فلاتکلنی الی اختیاری۔ اے اللہ میرے حق میں بہتر فرما، اور جو چیز میرے لئے بہتر ہو رہی ہے اختیار فرما، پس مجھے میرے اختیار کے سپرد نہ فرما۔
اور استخارہ کا کامل طریقہ یہ ہے کہ پہلے دو رکعت نماز پڑھے اور پھر استخارہ کی دعا پڑھے جو بطور " مسنون دعا " مشہور ہے اور اسی کتاب کے گزشتہ صفحات میں نقل بھی کی جا چکی ہے۔
طبرانی نے اوسط میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ ماخاب من استخار ولا ندم من استشار ولا عال من اقتصد۔ یعنی وہ شخص نامراد نہیں ہو سکتا جس نے استخارہ کیا ، وہ شخص نادم وشرمندہ نہیں ہو سکتا جس نے مشورہ کیا اور وہ شخص محتاج نہیں ہو سکتا جس نے میانہ روی اختیار کی۔
بعض حکماء نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ چار چیزیں حاصل ہو گئیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں ہو سکتا ، جس شخص کو شکر گزاری کا مرتبہ حاصل ہو وہ نعمتوں میں اضافہ وزیادتی سے محروم نہیں رہے گا، جس شخص کو توبہ کی توفیق نصیب ہوگی وہ قبولیت سے محروم نہیں رہے گا جس شخص نے استخارہ کا راستہ اختیار کیا وہ بہتری وبھلائی سے محروم نہیں رہے گا، جس شخص نے مشورہ حاصل کیا وہ صحیح بات تک پہنچنے سے محروم نہیں رہے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں