مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کسب اور طلب حلال کا بیان ۔ حدیث 1229

اصل زہد کیا ہے؟

راوی:

وعن أبي ذر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال الزهادة في الدنيا ليست بتحريم ولا إضاعة المال ولكن الزهادة في الدنيا أن لا تكون بما في يديك أوثق بما في يد الله وأن تكون في ثواب المصيبة إذا أنت أصبت بها أرغب فيها لو أنها أبقيت لك رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي هذا حديث غريب وعمرو بن واقد الراوي منكر الحديث .

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دنیا سے زہد اختیار کرنا یہ نہیں ہے کہ حلال چیزوں کو حرام کر لیا جائے اور مال واسباب کو ضائع کر دیا جائے بلکہ دنیا سے زہد اختیار کرنا یہ ہے (یعنی اس دنیا کے تئیں کامل ومعتبر زہد یہ ) کہ مال ودولت اور دیگر دنیاوی اسباب میں سے) جو کچھ تمہارے ہاتھوں میں ہے اس پر اس چیز سے زیادہ اعتماد و بھروسہ نہ کرو جو اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے نیز زہد یہ ہے کہ تم اس وقت کہ جب کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو طلب ثواب کی خاطر اس مصیبت کی طرف کہ جو اگر تمہارے لئے باقی رہے زیادہ رغبت رکھو۔ (ترمذی ، ابن ماجہ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی عمرو بن واقد، منکر الحدیث ہیں۔

تشریح
حقیقی زہد کیا ہے اور زاہد کسے کہتے ہیں؟ اس بات کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے چنانچہ ارشاد گرامی کے مطابق دنیا سے زہد اختیار کرنا اس چیز کا نام ہرگز نہیں ہے کہ محض دنیا کی نعمتوں اور لذتوں اور طبعی خواہشوں کو ترک کر دیا جائے جب کہ ایسا کرنا گویا ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لینا ہے جن کو اللہ نے حلال کیا ہے اور یہ بات نہ صرف یہ کہ حقیقی زہد وتقوی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی بلکہ بذات خود ممنوع ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے۔
آیت (لاتحرموا طیبات مااحل اللہ لکم) ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے علاوہ ازیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ ثابت ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرغوب ولذیذ چیزوں اور اللہ کی اتاری ہوئی دنیاوی نعمتوں سے اجتناب نہیں کیا بلکہ جو چیز حاصل ہوئی اس سے فائدہ اٹھایا اور ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ زہد وتقوی کس سے ہو سکتا ہے۔ لہٰذا جو نام نہاد صوفی اور جاہل محض ترک لذات کو زہد وتقویٰ کا کمال سمجھتے ہوئے عمدہ ولذیذ کھانوں اور پھل ومیوہ جات وغیرہ سے اجتناب کرتے ہیں اچھے اور نئے لباس اور اسی طرح کی دوسری نعمتوں کو ترک کرتے ہیں اور اس چیز کو زہد وتقویٰ کا نام دیتے ہیں وہ حقیقت میں یہ جانتے تک نہیں کہ زہد کس کو کہتے ہیں اور زاہد ہونے کا مطلب کیا ہے ، اسی طرح زہد وتقویٰ یہ بھی نہیں ہے کہ اللہ نے جو مال ودولت اور روپیہ پیسہ عطا کیا ہو اس کو یوں ہی ضائع کر دیا جائے یا اس کو غیر مصرف میں خرچ کر دیا جائے مثلا یہ سوچ کر کہ میرے پاس جو مال ودولت رہے زہد وتقویٰ کی راہ میں رکاوٹ ہے اس کو لے جا کر دریا میں پھینک دے یا فقیر وغنی مستحق وغیرمستحق کی تمیز کے بغیر لوگوں میں بانٹ دے۔
حاصل یہ کہ نہ تو اس طرح کے ظاہری زہد کا اعتبار ہے اور نہ یہ بات گوارا کرنے کے قابل ہے کہ دنیا کے ظاہری مال واسباب سے اپنے ہاتھ کو بالکل خالی رکھے اور کوئی چیز کمانے اور اپنے پاس رکھنے کو تو زہد و تقویٰ کے خلاف جانے مگر معاشی ضرورت واحتیاج کے وقت دل غیر اللہ کی طرف متوجہ رکھے بلکہ اصل مدار و اعتبار قلب کے زہد پر ہے کہ دل ہر صورت میں صرف اللہ کی طرف متوجہ رہے اور اس میں دنیا اور دنیا کی کسی چیز کی کوئی محبت نہ ہو۔
" جو کچھ تمہارے ہاتھوں میں ہے" سے مراد یہ ہے کہ دنیاوی مال واسباب ، تدبیر وہنر، کسب وعمل اور مادی اسباب و وسائل ہیں۔ اسی طرح " جو اللہ کے ہاتھوں میں ہے" سے مراد یہ ہے کہ وہ چیز اس کے ظاہری وباطنی خزانوں میں ہے۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا اصل اعتماد و بھروسہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر ہونا چاہئے ۔ جو اس نے تمہیں رزق دینے اور تم تک اپنی نعمتیں پہنچانے کے بارے میں کیا ہے کہ وہ تمہیں اس طرح رزق دیتا ہے اور ایسی جگہ سے تم تک اپنی نعمتیں پہنچاتا ہے کہ تم اس کا گمان بھی نہیں کر سکتے۔ جو چیز تم اپنی سعی وتدبیر سے حاصل کرتے ہو اور جو مال وغیرہ تم اپنے کسب وعمل کے ذریعہ پیدا کرتے ہو اس کو یہ نہ سمجھو کہ واقعتا اس چیز کے حاصل ہونے اور اس مال کے ملنے کے صرف تمہاری تدبیر وسعی اور تمہارے کسب وعمل کا دخل ہے بلکہ یہ یقین رکھو کہ تم تک جو کچھ بھی آیا ہے وہ سب دراصل اللہ ہی کی طرف سے اس کے وعدہ رزق کے مطابق آیا ہے اگر اللہ تمہیں کچھ بھی نہ دینا چاہتا تو تم لاکھ تدبیر وسعی کرتے اور کتنی ہی محنت ومشقت سے کماتے تمہارے ہاتھ میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ آ سکتی تھی پھر اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے تھا کہ تم نے ظاہری اسباب و وسائل کے ذریعہ جو کچھ کمایا اور حاصل کیا ہے اور تمہارے کسب و عمل کے نتیجہ میں جو بھی چیز تمہارے پاس آئی ہے کہ خواہ وہ جاہ ومنصب ہو یا مال و زر، خواہ وہ صنعتی وتجارتی کاروبار ہو یا زمین وجائیداد ہو، بالفرض محال علم کیمیا ہی کیوں نہ ہو، یہ سب چیزیں ان نعمتوں اور فائدوں سے زیادہ دیرپا ہرگز نہی ہو سکتیں جو اللہ کے خزانہ قدرت میں موجود ہیں اور جو تمہیں ابھی نہیں ملی ہیں، کیونکہ تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب تلف وفنا ہو جانے والا ہے اس کے برخلاف جو چیزیں اور نعمتیں اللہ کے خزانوں میں ہیں وہ سب ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (ماعندکم ینفد وماعند اللہ باق)۔ تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے سب فانی ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔
حدیث کے آخری جزو، وان تکون فی ثواب المصیبۃ الخ کا مطلب یہ ہے کہ زہد یہ بھی ہے کہ تم دنیا کی راحت چین اور آرام و آسائش کی طرف مائل ومتوجہ نہ ہو اور دنیاوی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی خواہش و آرزو نہ رکھو بلکہ یہ جانو کہ دنیا کی نعمتیں اور لذتیں دراصل ان آفات اور بلاؤں میں مبتلا کرنے کا ذریعہ ہیں جو دینی اور اخروی ، زندگی کو نقصان پہنچاتی ہی۔ یہ اس لئے ضروری ہے تاکہ تمہارا دل دنیا کی طرف مائل نہ ہو اور تمہارا نفس دنیاوی چیزوں سے کوئی انس و تعلق نہ رکھے لہٰذا جب تم کسی دنیاوی مصیبت وآفت میں مبتلا ہو تو اس وقت مضطرب وپریشان حال اور شاکی ہونے کے بجائے اس مصیبت وآفت کو خوش آمدید کہو اور اس کے ذریعہ اجر و ثواب کے طلبگار بنو یہاں تک کہ اس وقت تمہارے دل میں اس مصیبت کی طرف اتنی زیادہ رغبت واشتیاق ہو کہ جیسے وہ ابھی آئی نہیں ہے اور تم اس کے منتظر ہو۔
واضح رہے کہ ان الفاظ لو انہا بقیت میں لفظ بقیت دراصل لم یصب کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور جملہ کا واضح مفہوم ، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اجر و ثواب کی وجہ سے اس مصیبت کی طرف تمہاری رغبت، عدم مصیبت کی رغبت سے زیادہ ہونی چاہئے۔
بہرحال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زہد کی مذکورہ دو صورتیں بیان کر کے یہ واضح فرمایا کہ کسی شخص میں ان دونوں صفات کا ہونا اس کے حق میں یہ کھلی ہوئی دلیل ہوگی کہ وہ زہد کے مقام پر فائز ہے دنیا اور دنیا کی چیزیں اس کی نظر میں کالعدم اور صرف آخرت اس کا مطلوب ومقصود ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ یوں تو بظاہر زہد کا مفہوم یہی ہے کہ دنیا سے بے رغبتی ہو، دنیاوی متاع وخواہشات جیسے مال ودولت اور جاہ ومنصب وغیرہ کو ترک کیا جائے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ زہد کا مرتبہ محض اس چیز سے کامل نہیں ہوتا تاوقتیکہ صبر و توکل کا مقام حاصل نہ ہو اور آخرت کی طرف رغبت واشتیاق اس حد کو نہ پہنچ جائے کہ اس دنیا میں جو مصیبتیں اور بلائیں پہنچیں وہ آخرت کے اجر و ثواب کی تمنا میں محبوب وپسندیدہ بن جائیں اور ان کا پہنچنا، ان کے نہ پہنچنے سے زیادہ مرغوب ہو۔ اگر یہ مقام حاصل ہو جائے تو سمجھنا چاہئے کہ زہد کی صفت پوری طرح پیدا ہوگئی ، ورنہ بصورت دیگر محض مال و دولت کو ترک کرنا اور دنیاوی لذتوں اور نعمتوں سے اجتناب کرنا گویا اپنے مال کو ضائع کرنا اور حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لینا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں