حصول رزق کے بارے میں ایک خاص ہدایت
راوی:
وعن ابن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أيها الناس ليس من شيء يقربكم إلى الجنة ويباعدكم من النار إلا قد أمرتكم به وليس شيء يقربكم من النار ويباعدكم من الجنة إلا قد نهيتكم عنه وإن الروح الأمين وفي رواية وإن روح القدس نفث في روعي أن نفسا لن تموت حتى تستكمل رزقها ألا فاتقوا الله وأجملوا في الطلب ولا يحملنكم استبطاء الرزق أن تطلبوه بمعاصي الله فإنه لا يدرك ما عند الله إلا بطاعته . رواه في شرح السنة والبيهقي في شعب الإيمان إلا أنه لم يذكر وإن روح القدس .
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ لوگو! کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تم کو جنت سے قریب کر دے اور دوزخ کی آگ سے دور کر دے علاوہ اس چیز کے جس کو اختیار کرنے کا حکم میں نے تمہیں دیا ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تم کو دوزخ کی آگ سے قریب کر دے اور جنت سے دور کر دے علاوہ اس چیز کے جس سے میں نے تمہیں منع کیا ہے، اور روح الامین۔ یا ایک روایت میں ہے کہ روح القدس (یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے (یعنی میرے پاس وحی خفی لائے ہیں) کہ بلاشبہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنا رزق پورا نہیں کر لیتا (یعنی جو شخص بھی اس دنیا میں آتا ہے وہ اپنے اس رزق کو پائے بغیر دنیا سے نہیں جاتا جو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اسے مقدر میں لکھدیا جاتا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ نے اس طرف یوں اشارہ فرمایا ہے آیت (اللہ الذی خلقکم ثم رزقکم ثم یمیتکم) پس جب یہ معاملہ ہے کہ جو رزق مقدر ہو گیا ہے وہ ہر حال میں ملے گا تو دیکھو، اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے رہو اور حصول معاش کی جدوجہد نیک روی اور اعتدال اختیار کرو تاکہ تمہارا رزق تم تک جائز وحلال وسائل وذرائع اور مشروع طور طریقوں سے پہنچے نیز کہیں ایسا نہ ہو کہ رزق پہنچنے میں تاخیر تمہیں اس بات پر اکسا دے کہ تم گناہوں کے ارتکاب کے ذریعہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگو، حقیقت یہ ہے کہ جو چیز اللہ کے پاس ہے اس کو اس کی طاعت وخوشنودی ہی کے ذریعہ پایا جا سکتا ہے ۔ اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے لیکن بیہقی نے وان روح القدس کے الفاظ نقل نہیں کئے ہیں۔
تشریح
حدیث کے ابتدائی جملوں کا مفہوم اس بات پر بصراحت دلالت کرتا ہے کہ وہ تمام باتیں جو انسانیت کو ابدی نفع پہنچانے والے امور اور نقصان کو دفع کرنے والے ذرائع سے روشناس کراتی ہیں صرف کتاب وسنت سے حاصل کی جا سکتی ہیں ، جو باتیں اور جو چیزیں کتاب وسنت کی روشنی سے بے بہرہ ہوں وہ انسان کو صلاح وفلاح سے تو کیا ہمکنار کر سکتی ہیں ان میں اپنا وقت بھی صرف کرنا عمر کو بے فائدہ ضائع کرنا ہے۔
لفظ " روح" جان کے معنی میں آتا ہے اور اس سے " وحی" جبرائیل اور عیسی علیہ السلام کے معنی بھی لئے جاتے ہیں، یہاں اس لفظ سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ذات مراد ہے اور ان کی صفت " امین" کے ذریعہ بیان کرنا (یعنی ان کو روح الامین کہنا ان کی اس کمال دیانت داری کے سبب سے ہے جو اللہ کے رسولوں تک علم و وحی پہنچانے میں ان کا وصف خاص ہے۔ اسی طرح روح القدس میں ان کی طرف قدس (پاکی) کی نسبت ناموئی نجاست وکثافت سے ان کی کمال طہارت وپاکی بناء پر ہے۔
لفظ " اجملوا " اجال سے نکلا ہے اور اس کے معنی ہیں روزی کی تلاش میں اعتدال اختیار کرنا، مطلب یہ ہے کہ تم حصول معاش کی خاطر کئے جانے والے کسب وعمل اور سعی وجدوجہد میں نیکی ومیانہ روی اختیار کرو، طلب معاش میں ضرورت سے زیادہ مشقت ومحنت کرنا غیر مناسب بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں تلاش رزق کا مکلف قرار نہیں دیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ آیت (وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔ ماارید منہم من رزق وما ارید ان یطعمون۔ ان اللہ ہو الرزاق ذوالقوۃ المتین)۔ میں نے جنات اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ، میں ان سے رزق کا بالکل طالب نہیں ہوں اور نہ یہ قطعا چاہتا ہوں کہ وہ مجھ کو بھلائیں، حقیقت یہ ہے کہ رزاق تو صرف اللہ تعالیٰ ہے (اور) وہ بڑی زبردست قوت کا مالک ہے۔
ایک موقع پر پروردگار نے یوں فرمایا ہے۔ آیت (وأمر اھلک بالصلوۃ واصطبر علیہا لا نسئلک رز قا نحن نرزقک ، والعاقبۃ للتقویٰ) ۔ اور اپنے گھر والوں کو نماز پڑھنے کا حکم کرو اور اس پر صابر و قائم رہو ، ہم تم سے روزی کے خواستگار نہیں ہیں (یعنی ہم تمہیں اپنی اور دوسروں کی روزی پیدا کرنے کا مکلف قرار نہیں دیتے بلکہ ہم تمہیں روزی دیتے ہیں اور حسن انجام انہیں کے لئے ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ لفظ اجملو کے ذریعہ جو حکم دیا گیا ہے اس کا مفہوم اگر وہ مراد لیا جائے جو اوپر مذکور ہوا تو پھر یہ حکم اباحت کے لئے ہوگا، اور اگر اس لفظ کے یہ معنی مراد لئے جائیں کہ تم اپنا رزق حلال وجائز وسائل و ذرائع سے حاصل کرو، تو اس صورت میں حکم وجوب کے لئے ہوگا، اس کی تائید بعد کی عبارت ولا یحملنکم الخ سے بھی ہوتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حصول معاش کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے اور رزق پہنچنے میں تاخیر محسوس کرو تو اس کی وجہ سے مضطرب وپراگندہ خاطر نہ ہو جاؤ اور ایسا ہرگز نہ ہو کہ روزی حاصل کرنے کے لئے حرام ومکروہ ذرائع اختیار کرنے لگو، مثل چوری ڈکیتی پر اتر آؤ کسی کا مال ہڑپ کر لو، امانت میں خیانت کے مرتکب ہو جاؤ اور کچھ نہ سہی تو اپنی سیادت وحیثیت اور اپنی عبادت ودیانت کا اظہار کر کے ان چیزوں کو حصول رزق کا واسطہ بنا لو، یا بیت المال جیسے مراکز سے اپنے حق اور اپنی حاجت سے زیادہ حاصل کرنے میں کوئی خرابی نہ سمجھو وغیرہ وغیرہ۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ رزق دیر سے کبھی نہیں پہنچتا جو کچھ پہنچے اور جس وقت پہنچے اصل رزق ہی ہے اور اسی طرح مقدر ہوتا ہے، پھر یہ کہ گناہ ومعصیت کے ارتکاب سے رزق میں نہ تو وسعت ہوتی ہے اور نہ جلدی پہنچتا ہے اسی قدر ملتا ہے اور اسی وقت پہنچتا ہے کہ مقدر میں جس قدر اور جس وقت پہنچنا لکھا جا چکا ہے، علاوہ ازیں مضطرب اور پراگندہ خاطر ہونے سے سوائے گناہ کے اور کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، اور جو رزق گناہ کے ساتھ پہنچے وہ حرام ہوتا ہے۔ لہٰذا حصول معاش کی راہ میں اضطراب وبے چینی اور گناہ ومعصیت کی راہ اختیار کرنا کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔
طیبی نے لکھا ہے کہ اجملو کے ذریعہ جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مال کماؤ تو حسن وخوبی کے ساتھ کماؤ یعنی کسی حال میں ایسا کوئی ذریعہ اور ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کرو جو شریعت کے خلاف ہو
لفظ استبطأ اصل میں ابطاء تاخیر ہونے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور حرف " سین" اظہار مبالغہ کے لئے ہے جیسا کہ قرآن نے ان الفاظ آیت (ومن کان غنیا فلیستعفف) میں استعفف دراصل عف (باز رہنے) کے معنی میں ہے۔