اللہ پر پوری طرح توکل کرنے کی فضیلت
راوی:
عن عمر بن الخطاب قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لو أنكم تتوكلون على الله حق توكله لرزقكم كما يرزق الطير تغدو خماصا وتروح بطانا . رواه الترمذي وابن ماجه .
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل واعتماد کرو جیسا کہ توکل کا حق ہے تو یقینا وہ تمہیں اسی طرح روزی دے گا جس طرح کہ پرندوں کو روزی دیتا ہے۔ (وہ پرندے صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے اپنے گھونسلوں میں واپس آتے ہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
تشریح
توکل کا حق یہ ہے کہ اول تو اس بات پر پورا یقین واعتقاد ہو کہ کسی بھی چیز کو وجود میں لانے والا اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ اور ہر موجودہ کو خواہ وہ جاندار یا غیر جاندار مخلوق ہو، یا رزق، کسی چیز کا ملنا ہو یا نہ ملنا ہو، ضرر ہو یا نفع ہو، غربت وافلاس ہو یا ثروت و مال داری ہو، مرض ہو یا صحت ہو، اور موت ہو یا حیات ہو، غرضیکہ کوئی بھی چیز ہو، سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور سب چیزیں اسی کی طرف سے ہیں، پھر اس امر کا پختہ اعتقاد ہو کہ رزق کا ضامن بلاشک وشبہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اور پھر اس یقین واعتقاد کے ساتھ حصول معاش کی سعی وجہد میں اچھے طور طریقوں سے، اور مناسب ومعقول صورت میں مشغول ہو، یعنی کسب و کمائی میں زیادہ تعب ومشقت برداشت نہ کرے، حرص ولالچ میں مبتلا نہ ہو، ضرورت سے زیادہ حاصل کرنے کی جدوجہد نہ کرے اور کمانے کی دھن میں غرق نہ ہو جائے کہ حلال وحرام کی تمیز بھی نہ کر سکے۔
حضرت امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا گمان یہ ہو کہ " توکل" نام سے کسب وعمل کے ترک کر دینے کا " اور ہاتھ پاؤں کو معطل کر دینے اور اپاہج بن کر" پڑے رہنے کا کہ جس طرح کسی کپڑے کو زمین پر ڈال دیا جائے تو، وہ شخص نرا جاہل ہے۔ اور حضرت امام قشیری رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ " توکل کا اصل مقام قلب ہے، اور حصول معاش کے لئے حرکت وعمل ایک ظاہری فعل ہے جو توکل کے منافی نہیں ہے بشرطیکہ اصل اعتماد اپنے کسب وعمل کی بجائے محض اللہ تعالیٰ پر ہو ، اسی لئے حدیث میں پرندہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور وہ اگرچہ اپنی روزی کی تلاش میں نکلتا ہے اور سارے جہاں میں مارا مارا پھرتا ہے لیکن اس کا اصل اعتماد اللہ تعالیٰ ہی پر ہوتا ہے، نہ کہ اپنی طلب اور جدو جہد اور اپنی تدبیر وقوت پر لہٰذا اس سے واضح ہوا کہ انسان کا حصول معاش کے لئے معقول اور مناسب طریقہ پر جدوجہد اور سعی کرنا اللہ تعالیٰ پر اعتماد وبھروسہ کرنے کے منافی نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا آیت (وکاین من دابۃ لا تحمل رزقہا اللہ یرزقہا وایاکم) ۔ یعنی اور کوئی جانور اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی اس کو بھی اور تمہیں بھی رزق عطا کرتا ہے۔
حاصل یہ کہ حدیث کا مفہوم اس امر سے آگاہ کرنا ہے کہ سعی جدوجہد اور کسب وعمل حقیقت میں رزق پہنچانے والا نہیں ہے بلکہ رزق پہنچانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اسی طرح حدیث کا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ انسان کو اپنی روزی کمانے کے لئے حرکت وعمل سے باز رکھا جائے کیونکہ اللہ پر توکل و اعتماد کا تعلق دل سے ہے جو اعضائے ظاہری کی حرکت وعمل کے مطلقاً منافی نہیں ہے، گو بسا اوقات اعضا وجوارح کی حرکت اور کسی کسب وعمل کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ رزق پہنچاتا ہے بلکہ توکل کی برکت تو یہاں تک ہوتی ہے کہ متوکل کو اپنا رزق لینے کے لئے حرکت بھی کرنا نہیں پڑتی بلکہ دوسرے حرکت کر کے اس تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق پہنچاتے ہیں جیسا کہ اس ارشاد ربانی کے عمومی مفہوم سے واضح ہوتا ہے ۔ آیت (ومامن دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقہا ۔
کہ جب کوے کے بچے انڈے سے باہر آتے ہیں تو بالکل سفید ہوتے ہیں اور کوا ان بچوں کو دیکھتا ہے تو وہ اسے بہت برے لگتے ہیں چنانچہ ان بچوں کو چھوڑ کر کوا چلا جاتا ہے۔ اور وہ تنہا پڑے رہ جاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ ان کے پاس مکھی اور چیونٹیاں بھیجتا ہے جن کو وہ بچے بچے چن چن کر کھاتے ہیں ، اور پرورش پاتے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو اپنا رنگ بدل دیتے ہیں اور بالکل سیاہ ہو جاتے ہیں، پھر جب کچھ عرصہ کے بعد کوا ان بچوں کے پاس آتا ہے اور ان کو سیاہ رنگ کو دیکھتا ہے تو ان کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور ان کی پرورش کرنے لگتا ہے اس سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ بغیر حرکت وسعی کے بھی کسی طرح رزق پہنچاتا ہے، اس سلسلے میں کافی حکایتیں بیان کی جاتی ہیں لیکن یہ حکایت تو بہت ہی عجیب وغریب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روح قبض کرنے والے فرشتے عزرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا کسی کی روح نکالتے وقت تجھے رحم بھی کبھی آیا ہے؟ عزرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں اے میرے پروردگار، ایک موقع پر تو مجھے بہت ہی رحم آیا تھا، اور وہ اس وقت کا قصہ ہے جب کہ ایک کشتی ٹوٹ گئی تھی اور اس کے لوگ پانی میں غرق ہو گئے تھے لیکن کچھ لوگ ڈوبنے سے بچ گئے تھے اور کشتی کے باقی ماندہ تختوں پر تیر رہے تھے، انہی میں ایک عورت تھی جو ایک تیرتے ہوئے تختے پر بیٹھی ہوئی اپنے شیر خوار بچے کو دودھ پلا رہی تھی ، جبھی تیرا حکم ہوا کہ اس عورت کی روح قبض کر لی جائے چنانچہ میں نے اس عورت کی روح قبض کر لی، لیکن اس کے بچے پر بہت رحم آیا جو اس دریا میں ایک ٹوٹے ہوئے تختے پر تنہا رہ گیا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے اس بچے کا انجام کیا ہو؟ میں نے اس تیرتے ہوئے تختے کو ایک جزیرہ کے کنارے لگ جانے کا حکم دیا جہاں اس نے بچہ کو ساحل پر ڈال دیا، پھر میں نے ایک شیرنی اس بچے کے پاس بھیجی جس نے اس کو اپنا دودھ پلا پلا کر پرورش کیا، جب وہ کچھ بڑا ہو گیا تو میں نے کچھ جنات متعین کر دئیے تاکہ وہ اس بچے کو آدمیوں کی بول چال اور رہن سہن کی تعلیم دیں، یہاں تک کہ وہ ایک مضبوط جوان ہو گیا اور پھر علم وفضل میں کمال حاصل کرتا ہوا علماء کی صف میں داخل ہوگیا، دولت وامارت سے بہرہ مند ہوا اور آخرکار سلطنت کے مرتبہ کو پہنچ کر تمام روئے زمین کا بادشاہ وحکمران بن گیا، تب وہ اپنی اصل حقیقت کو بھول گیا، روئے زمین پر چلنے والی اس کی مطلق العنانی اس کی انسانیت وعبودیت کی سب سے بڑی دشمن بن گئی، اس نے عبودیت کے مرتبہ اور ربوبیت کے حقوق کو فراموش کر دیا اس کو یہ یاد نہ رہا کہ اللہ تو وہ ذات ہے جس نے اس کو دریا کی لہروں سے زندہ بچا کر اپنی قدرت کے ذریعہ پرورش وتربیت کے مراحل سے گزارا، اور پھر اس مرتبہ تک پہنچایا کہ آج وہ تمام روئے زمین کا بادشاہ اور مطلق العنان حکمران بنا بیٹھا ہے، جانتے ہو وہ کون شخص تھا؟ وہ اس دنیا میں شداد کے نام سے مشہور ہوا ہے۔
بہرحال اہل ایمان کو فراموش نہ کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے وہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے، جب وہ اپنے دشمنوں کو رزق دیتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ان بندوں کو بھول جائے جو اس کے دوست اور محبوب ہیں۔