مومن کی مخصوص شان
راوی:
وعن صهيب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عجبا لأمر المؤمن كله خير وليس ذلك لأحد إلا للمؤمن إن أصابته سراء شكر
فكان خيرا له وإن أصابته ضراء صبر فكان خيرا له رواه مسلم
حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مومن کی بھی عجیب شان ہے کہ اس کی ہر حالت اس کے لئے خیر و بھلائی کا باعث ہے اور یہ بات صرف مومن کے لئے مخصوص ہے کوئی اور اس کے وصف میں شریک نہیں ہے اور اس کو رزق وفراخی و وسعت، راحت، چین، صحت وتندرستی، نعمت ولذت اور طاعت وعبادت کی توفیق کی صورت میں خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، بس یہ شکر اس کے لئے خیر و بھلائی کا باعث ہوتا ہے اور اگر اس کو فقر وافلاس ، مرض وتکلیف ، رنج والم اور آفات وحادثات کی صورت میں مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے پس یہ صبر بھی اس کے لئے خیر و بھلائی کا باعث ہوتا ہے۔ (مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی شب و روز کی زندگی میں یا تو ایسی حالت سے دوچار ہوتا ہے جو اس کو رنج و تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہے یا وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ جس سے وہ خوشی ومسرت محسوس کرتا ہے ان دونوں حالتوں سے کوئی شخص خالی نہیں ہوتا، پس مومن کے لئے رنج وتکلیف میں مبتلا کرنے والی حالت صبر کا تقاضہ کرتی ہے اور خوشی ومسرت دینے والی حالت شکر کا، اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں مقام صبر و شکر، نہایت اعلی ہیں اور بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث بنتے ہیں، اس طرح مومن گویا ہر حالت میں اعلیٰ مقام ومرتبہ اور بہت زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اوپر حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ " اور یہ بات صرف مومن کے لئے مخصوص ہے" تو بظاہر مومن سے مراد" مومن کا دل " ہے کیونکہ یہ کامل مومن کی ہی شان ہوتی ہے کہ وہ تنگی وسختی اور رنج وتکلیف کی حالت میں صبر کرتا ہے اور خوش حالی ومسرت کی صورت میں شکر گزار ہوتا ہے، اس کے برخلاف غیر کامل مومن کا یہ حالت ہوتا ہے کہ اگر اس کو رفہ وخوش حالی اور خوشی ومسرت کے اسباب میسر ہو جاتے ہیں تو وہ مغرور ہو جاتا ہے اور خلاف شرع باتیں کرنے لگتا ہے۔ اور اگر تنگی وسختی اور رنج وتکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو جزع فزع، شکوہ شکایت اور کفران نعمت کرنے لگتا ہے۔ لہٰذا ہر مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جس حالت میں بھی ہو اس کے مطابق اپنی کیفیت کا جائزہ لے اور دیکھے کہ وہ اپنے فکر و خیال اور قول وفعل کے اعتبار سے اس حدیث کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ اور پھر کامل مومن کہلانے کا مستحق ہے یا نہیں۔