توکل اختیار کرنے والوں کی فضیلت
راوی:
وعنه قال خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فقال عرضت علي الأمم فجعل يمر النبي ومعه الرجل والنبي ومعه الرجلان والنبي ومعه الرهط والنبي وليس معه أحد فرأيت سوادا كثيرا سد الأفق فرجوت أن يكون أمتي فقيل هذا موسى في قومه ثم قيل لي انظر فرأيت سوادا كثيرا سد الأفق فقيل لي انظر هكذا وهكذا فرأيت سوادا كثيرا سد الأفق فقيل هؤلاء أمتك ومع هؤلاء سبعون ألفا قدامهم يدخلون الجنة بغير حساب هم الذين لا يتطيرون ولايسترقون ولا يكتوون وعلى ربهم يتوكلون فقام عكاشة بن محصن فقال ادع الله أن يجعلني منهم . قال اللهم اجعله منهم . ثم قام رجل فقال ادع الله أن يجعلني منهم . فقال سبقك بها عكاشة . متفق عليه
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ (حالت کشف یا خواب میں) میرے سامنے امتوں کو (ان کے انبیاء کے ساتھ) پیش کیا گیا (یعنی ہر نبی کو اس کی امت کے ساتھ مجھے دکھایا گیا ) پس (جب ان انبیاء نے اپنی امتوں کے ساتھ گزرنا ) شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ ایک نبی کے ساتھ صرف ایک شخص تھا (یعنی دنیا میں اس کی پیروی کرنے والا اس ایک شخص کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوا) اور ایک نبی ایسا تھا کہ اس کے ساتھ دو شخص تھے، ایک اور نبی گزرا تو اس کی معیت میں پوری ایک جماعت تھی اور پھر ایک نبی ایسا بھی گزرا کہ اس کے ساتھ ایک بھی شخص نہیں تھا (یعنی دنیا میں اس کی پیروی کسی ایک شخص نے بھی نہیں کی) اس کے بعد میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑا انبوہ دیکھا جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا اتنی بڑی امت دیکھ کر میں نے امید باندھی کہ یہ میری امت ہوگی لیکن مجھے بتایا گیا کہ یہ حضرت موسی اور ان کی امت کے لوگ ہیں کہ جو ان پر ایمان لائے تھے پھر مجھ سے کہا گیا کہ ذرا آپ نظر اٹھا کر دیکھئے میں نے جو نظر اٹھائی تو اپنے سامنے دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم بے پناہ ہے جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا ہے (میں اتنا بڑا نبوہ دیکھ کر مطمئن ہو گیا اور اللہ کا شکر ادا کیا) پھر مجھ سے کہا گیا کہ آپ اس انبوہ کو بس نہ سمجھئے آپ اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو دیکھیں گے ذرا ادھر ادھر یعنی دائیں بائیں بھی نظر گھما کر تو دیکھئے چنانچہ میں نے دائیں بائیں نظر گھما کر دیکھا تو دونوں طرف بے پناہ ہجوم تھا جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اور دائیں بائیں آسمان کے کناروں تک جو انسانوں کا ایک بحر بیکراں نظر آتا ہے یہ سب آپ کی امت کے لوگ ہیں اور ان کے علاوہ (یعنی منجملہ ان لوگوں کے یا ان کے علاوہ مزید) ان کے آگے ستر ہزار لوگ ایسے ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ تو بدفالی لیتے ہیں، نہ منتر پڑھواتے ہیں اور نہ اپنے جسم کو دغواتے ہیں اور اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں ۔ یہ سن کر ، ایک صحابی عکاشہ بن محصن کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما دے جو اللہ پر توکل کرتے ہیں اور بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ الٰہی عکاشہ کو ان لوگوں میں شامل فرما دے، پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے بھی عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما دے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اس دعا کے سلسلہ میں عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
" نبی" سے مراد" رسول" ہیں کہ جو اللہ کا دین پہنچانے اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے اس دنیا میں مبعوث کئے گئے۔ جیسا کہ ترجمہ میں بین القوسین واضح کیا گیا، امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ " ستر ہزار" سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے ستر ہزار لوگ وہ ہیں جو ان لوگوں کے علاوہ ہیں، اور اس سے یہ معنی بھی لئے جا سکتے ہیں کہ ان ہی لوگوں میں ستر ہزار لوگ ایسے بھی ہیں جو بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے۔ اس دوسرے معنی کی تائید بخاری کے روایت کردہ ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے کہ ہذہ امتک ویدخلون الجنۃ من ھؤلاء سبعون الفا۔ یعنی یہ آپ کی امت کے لوگ ہیں اور ان میں سے ستر ہزار لوگ وہ ہیں جو بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے۔
" نہ اپنے جسم کو دغواتے ہیں" کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ بلا ضرورت اپنے جسم کے کسی حصہ پر آگ کا داغ نہیں لیتے الاّ یہ کہ انہیں کوئی ایسی مجبوری پیش آ جائے کہ دغوائے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو، تو یہ اور بات ہے چنانچہ ضرورت ومجبوری کے تحت دغوانا بعض صحابہ سے بھی ثابت ہے ان میں سے حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں جن کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ یا یہ معنی ہیں کہ وہ لوگ مطلق نہیں دغواتے، خواہ انہیں اس کی کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو، کیونکہ وہ تقدیر وقضاء الٰہی پر راضی و مطمئن ہوتے ہیں، ان کا صرف اللہ پر اعتماد و بھروسہ ہوتا ہے، وہ کسی آفت ومصیبت کو دفع کرنے کی تدبیر کرنے کی بجائے اس کی وجہ سے ایک خاص لذت محسوس کرتے ہیں اور اس بات پر ان کو پورا یقین ہوتا ہے۔ کہ فائدہ اور نقصان پہنچانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس کے علاوہ ایسی کوئی ذات اور کوئی چیز نہیں ہے۔ جو حقیقی موثر ہو۔ پس وہ لوگ پاک نفس، گویا مرتبہ مشہود پر فائز ہوتے ہیں کہ ان کی نظر میں ان کا اپنا وجود، عدم کے برابر ہوتا ہے اور نفس کی لذات وخواہشات کے اعتبار سے وہ فنا کا مقام اختیار کر لیتے ہیں۔
بعض شارحین نے یوں لکھا ہے کہ " نہ اپنے جسم کو دغواتے ہیں" کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ اول تو جسم کو دغوانے سے اجتناب کرتے ہیں لیکن اگر کسی مرض وتکلیف کی واقعی ضرورت ومجبوری کے تحت ان کو ایسا کرنا بھی پڑتا ہے تو ان کا فائدہ اور شفاء کا اعتقاد صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے نہ کہ محض دغوانے پر۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جسم پر داغ لینا ان اسباب میں سے ہے جو وہمیہ ہیں، نیز احادیث میں اس کی ممانعت منقول ہے لیکن اگر کسی بیماری وتکلیف کے دفعیہ کے لئے کوئی حاذق معالج دغوانے کو ضروری قرار دے اور اس کا کارگر ہونا یقینی امر ہو تو اس کی اجازت بھی ہے۔
" نہ منتر پڑھواتے ہیں" میں منتر سے مراد، منتر وافسوں اور جادو ہے کہ جس کے الفاظ ومعنی قرآن واحادیث صحیحہ کے مطابق نہ ہوں اور ان کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہو جانے کا خوف ہو، اسی طرح " ' نہ بد فالی لیتے ہیں" کا مطلب یہ ہے کہ کسی جانور، خواہ وہ پرندہ ہو اور خواہ چرند جیسے کتا اور بلی وغیرہ، ان کے اڑنے، ان کی آواز، اور ان کے راستہ وغیرہ کاٹنے سے وہ لوگ کوئی بدفالی نہیں لیتے۔
حاصل یہ ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ وہ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے وہ دراصل وہ لوگ ہیں جو اپنے ایمان واعتقاد اور کردار وعمل کے لحاظ سے بہت پختہ ومضبوط ہیں کہ وہ کسی بھی ایسے عقیدہ اور ایسے عمل کو مطلقاً اختیار نہیں کرتے جو زمانہ جاہلیت کے عقائد واعمال سے مطابقت ومشابہت رکھتا ہے۔
اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ مذکورہ لوگوں کے سلسلے میں " ستر ہزار" کی تعداد کا ذکر ہے تو کیا از ابتدا تا انتہا اس امت محمدیہ میں ایسے لوگوں کی تعداد صرف ستر ہزار ہی ہوگی؟ جب کہ یقینا اس وصف کے لوگ مذکورہ تعداد سے کہیں زیادہ ایک ہی زمانہ میں پائے جا سکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ستر ہزار سے مراد کسی مخصوص عدد کو واضح نہیں کرنا ہے۔ بلکہ ستر ہزار کا عدد استعمال کرنے کا واحد مقصد ایسے لوگوں کی کثرت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔
حدیث کے آخری جزء کے سلسلے میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے شخص کی درخواست قبول کیوں نہیں کی اور اس کے حق میں دعا کیوں نہیں کی؟ اس کے جواب دئیے جا سکتے ہیں مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مجلس میں صرف ایک ہی شخص کے حق میں دعا کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور چونکہ آپ عکاشہ کے حق میں دعا فرما چکے تھے اس لئے ان کے بعد کسی دوسرے شخص کے حق میں دعا کرنے کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی۔ یا یہ کہ وہ دوسرا شخص اپنی باطنی حیثیت وحالت کے اعتبار سے اس مرتبہ کا اہل اور اس منزلت کا مستحق نہیں تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے حق میں دعا نہیں فرمائی۔ لیکن اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے صراحت کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ تم اس مرتبہ ومنزلت کے اہل ومستحق نہیں ہو بلکہ اس کو ایک عام جواب دے دیا اور واضح فرمایا کہ عکاشہ کے حق میں دعا کرنے کا سبب ان کی طرف سے دعا کی عرض والتماس میں سبقت ہے! بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ شخص دراصل منافقین میں سے تھا اور ظاہر ہے کہ اس کی یہ حیثیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے حق میں دعا نہیں فرمائی لیکن آپ نے از راہ اخلاق ومروت اس سے یہ نہیں کہا بلکہ ایک مجمل جواب دے دیا۔ لیکن بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ عکاشہ کے حق میں دعا کرنا دراصل وحی خفی کے سبب تھا جس میں حضور کو مذکورہ دعا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
یہ قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ ایک اور روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ اس موقع پر دعا کی درخواست کرنے والے دوسرے شخص حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو مشاہیر صحابہ میں سے ہیں۔
نیز یہ ارشاد گرامی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نیکی کی راہ اختیار کرنے میں سبقت کرنی چاہئے اور اہل اللہ وبزرگان دین سے اپنے حق میں فلاح وسعادت کی دعا کی درخواست کی جانی چاہئے۔