مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کسب اور طلب حلال کا بیان ۔ حدیث 1223

توکل اختیار کرنے والوں کی فضیلت

راوی:

عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخل الجنة من أمتي سبعون ألفا بغير حساب هم الذين لا يسترقون ولا يتطيرون وعلى ربهم يتوكلون متفق عليه ( متفق عليه )

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے جو منتر نہیں کراتے، شگون بد نہیں لیتے ہیں اور (اپنے تمام امور میں جن کا تعلق خواہ کسی چیز کو اختیار کرنے سے ہو یا اس کو چھوڑنے سے) صرف اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
ستر ہزار کی تعداد سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو مستقل بالذات بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو ان ستر ہزار لوگوں کے متبعین کی حیثیت سے ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے۔ یہ وضاحت اس لئے کی گئی ہے تاکہ یہ روایت اس روایت کے منافی نہ رہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ بے حساب جنت میں جانے والے ان لوگوں میں ہر ایک کے ساتھ ان کے ستر ستر ہزار متبعین بھی ہوں گے۔
" منتر نہیں کراتے" میں منتر سے مراد یا تو مطلق جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈا وغیرہ ہے۔ یا اس سے وہ منتر اور ٹونا ٹوٹکا مراد ہے جو کلمات قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ اور اسماء الٰہی کے بغیر ہوں۔ اسی طرح " شگون بد" نہیں لیتے سے مراد یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی طرح پرندوں کے اڑ جانے اور آواز وغیرہ سن کر ان سے شگون بد نہیں لیتے ہیں بلکہ یوں گویا ہوتے ہیں کہ اللہم لا طیر الا طیرک ولا خیر الا خیرک ولا الہ غیرک اللہم لا یاتی بالحسنات الا انت ولایذہب بالسیئات الا انت۔
صاحب نہایہ نے کہا ہے کہ مذکورہ بالا اوصاف اولیائے کاملین کی خصوصیات میں سے ہیں کہ وہ پاک نفس لوگ دنیا کے اسباب و وسائل اور ان کے متعلقات سے بے اعتنائی برتتے ہیں اور دنیا سے تعلق رکھنے والی کسی بھی چیز کی طرف مائل وملتفت نہیں ہوتے اور یہی درجہ ہے جو خواص کے لئے مخصوص ہے اور اس درجہ تک عوام کی رسائی نہیں ہوتی لیکن جہاں تک ان عوام کا تعلق ہے تو ان کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ حلال اسباب وذرائع کو اختیار کریں اور دوا وغیرہ کے ذریعہ علاج معالجہ کرائیں البتہ اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کرنی ہے کہ جو شخص کسی بیماری وغیرہ کی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ اس پر صبر کرے پھر دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کشائش و راحت کا منتظر ومتمنی رہے تو یقینا وہ شخص اولیاء وخواص میں سے شمار ہونے کا مستحق ہوگا اور جو شخص اس پر صبر کرنے پر قادر نہ ہو اور وہ اس بیماری ومصیبت سے گلو خلاصی پانے کے ظاہری اسباب وذرائع اختیار کرنا چاہئے تو اس کو اس بات کی اجازت دے دی جائے گی کہ وہ دعا تعویذ اور دوا وغیرہ کے ذریعہ اپنی اس بیماری ومصیبت کے دفعیہ کی سعی کرے۔
حاصل یہ کہ جو شخص اپنی طبع حالت وکیفیات اور بطنی حیثیت کے اعتبار سے جس طرح کا ہوگا اس کے حق میں اس کے مطابق فیصلہ ہوگا اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے عنہ نے ایک موقعہ پر اپنا تمام مال واسباب اللہ کی راہ میں صرف کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس پیش کش کو رد نہیں کیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اچھی طرح جانتے تھے کہ ان میں یقین وصبر کا وصف بدرجہ کمال موجود ہے اس کے برخلاف جب ایک اور شخص نے کبوتر کے انڈے کے برابر سونا لا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ہے اور کہا کہ میرے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے یہ جو کچھ بھی ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے آپ کی نذر کرتا ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اس سونے کو قبول نہیں فرمایا بلکہ اس پر سخت ناراض ہوئے یہاں تک کہ اس کو ایک دھپ بھی مارا۔ یہاں تک ملا علی قاری کے منقولات کا ماحصل نقل کیا گیا۔
حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے یہ لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ حدیث میں منتر کا جو ذکر کیا گیا ہے اس سے زمانہ جاہلیت کے ٹونے ٹوٹکے اور مشرکانہ منتر مراد ہیں جن کا کتاب وسنت کی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور جن کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قطعا روا نہیں رکھا تھا کیونکہ ان منتروں کی ساخت اور ان کے الفاظ ومعانی کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ ان کو اختیار کرنے والا شرک میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ بات کہ منتر سے زمانہ جاہلیت کے منتر مراد ہیں حدیث کے الفاظ لایتطیرون سے بھی واضح ہوتی ہے کہ تطیر یعنی بدفالی لینا زمانہ جاہیت کے اہل عرب کا خاص معمول تھا۔ پس جس طرح زمانہ جاہلیت کی دیگر مشرکانہ رسوم وعادات سے اجتناب ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اسی طرح تطیر یعنی بدفالی لینے سے بھی قطعی پرہیز کرنا نہایت لازم ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج کے بہت سے مسلمان بھی بر بناء جہل ونادانی بدفالی لینے کی برائی میں مبتلا ہیں باوجودیکہ زمانہ جاہلیت کی ایک مشرکانہ عادت رہی ہے اور اگر اس بات سے قطع نظر بھی کر لیا جائے تو اس سے اجتناب کی ایک بڑی معقول وجہ یہ بھی ہے کہ بدفالی نہ لینے والے کو بڑی فضیلت کا حامل قرار دیا گیا ہے بایں طور کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو بغیر حساب جنت میں شامل کئے جائیں گے، نیز اس سے اجتناب ایک ایسا وصف بھی ہے جس کو توکل کے درجات میں سے شمار کیا جا سکتا ہے ۔ اور اس سے بالا تر درجہ وہ ہے جو ہر طرح کے علاج معالجہ جھاڑ پھونک تعویذ گنڈے اور دیگر تدابیر کو کلیۃ ترک کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے اور جس کا مقصد حقیقی توکل کے مقام کو ثابت وظاہر کرنا ہوتا ہے چنانچہ توکل کا متعارف مفہوم بھی یہ بیان کیا جاتا ہے اور اسی لئے صوفیہ نے توکل کی وضاحت یہی کی ہے کہ توکل کا مطلب ہے حق تعالیٰ کی رزاقیت پر کامل اعتماد وبھروسہ کر کے سبب کسب وعمل اور اسباب و وسائل کو مطلق ترک کر دینا۔ یہ دوسرا یا اوسط درجہ ہے جو خواص کا مرتبہ مانا جاتا ہے اس مرتبہ کے لوگ اس اجر و فضیلت کے مستحق قرار پاتے ہیں جس کا ذکر حدیث میں ہے بلکہ مزید برآں ایک اور عظیم الشان سعادت کی بشارت دی گئی ہے کہ آیت (للذین احسنوا الحسنی وزیادۃ) اس کے بعد تیسرا درجہ وہ ہے جو اس مقام کے منتہی اور مقربین بارگاہ الٰہی کے لئے مخصوص ہے اس درجہ کے لوگوں کی ظاہری نظر میں اسباب وذرائع کلیۃ ساقط ہوتے ہیں کہ ان کے نزدیک ان کا عدم اور وجود دونوں برابر ہیں، وہ اگر اسباب وذرائع کو کسی حد تک اختیار بھی کرتے ہیں تو محض اظہار عبودیت اور مشیت الٰہی کی فرمانبرداری کے طور پر، اور اس حیثیت سے ان کا اسباب وذرائع کو اختیار کرنا ان کے حق میں عزیمت (اولویت) کا حکم رکھتا ہے یہ مرتبہ اخص الخواص کا مرتبہ کہلاتا ہے اور وہ انبیاء واولیاء ہیں کہ جو اپنی ذات کے اعتبار سے فانی اور اللہ کے ساتھ باقی ہیں اور توکل کا یہی سب سے آخری مرتبہ بھی ہے اور اس کی اصل حقیقت بھی، نیز جو بندگان خاص اس مرتبہ تک پہنچ جاتے ہیں، ان کی فضیلت سب سے زیادہ اور ان کا اجر سب سے بڑا ہوتا ہے۔
مذکورہ مسئلے میں عالمگیری نے یہ قاعدہ کلیہ بیان کیا ہے کہ کسی نقصان وضرر اور تکلیف کو دور کرنے والے اسباب وذرائع تین طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ کہ جن کا موثر ہونا یقینی ہوتا ہے جیسا کہ پانی پیاس کو اور کھانا بھوک کو دور کرتا ہے دوسرے وہ اسباب جو ظنی ہوتے ہیں جیسے فصد کھلوانا ، پچھنے لگوانا، مسہل لینا اور طب کے دوسرے قواعد وضوابط کہ مثلاً گرمی سے پیدا ہونے والے امراض میں ٹھنڈی دواؤں کے ذریعہ اور ٹھنڈ سے پیدا ہونے والے امراض میں گرم دواؤں کے ذریعہ علاج معالجہ کرنا، اور یہ چیزیں طبی نقطہ نظر سے ظاہری اسباب کا درجہ رکھتی ہیں اور تیسرے وہ اسباب کہ جو موہوم ذریعہ ہوتے ہیں جیسے جسم کو داغنا، دعاؤں کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا اور تعویذ گنڈا وغیرہ۔ پس جو اسباب وذرائع یقینی درجہ رکھتے ہیں ان کو ترک کرنا نہ صرف یہ کہ توکل کے لئے شرط نہیں ہے بلکہ اس صورت میں شرعی نقطہ نظر سے بھی حرام ہے جب کہ ان کو ترک کرنے کی وجہ سے موت کے واقع ہو جانے کا خوف ہو، اس کے برخلاف جہاں تک ان اسباب وذرائع کا تعلق ہے جو موہوم کی حیثیت رکھتے ہیں ان کو ترک کرنا ہی توکل کی شرط ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے اسباب وذرائع کو ترک کرنے والوں کو " متوکلین " کے زمرہ میں شمار فرمایا ہے، رہی ان اسباب وذرائع کی بات جو ظنی ہیں اور جو اطباء وحکماء کے نزدیک ظاہری اسباب کا درجہ رکھتے ہیں تو ان کو اختیار کرنا یعنی طبی اصول وقواعد کے تحت علاج کرانا توکل کے منافی نہیں ہے۔ اس طرح ظنی اسباب، موہوم اسباب کی طرح تو توکل کے خلاف نہیں ہے اور ان کو ترک کرنا یقینی اسباب کو ترک کرنے کی طرح ممنوع نہیں ہے بلکہ بعض احوال میں اور بعض اشخاص کے حق میں ان کو ترک کرنا افضل ہو جاتا ہے۔ پس یہ ظنی اسباب گویا دو درجوں کے درمیان ایک معتدل درجہ ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں