پیلو کے پھل کی فضیلت
راوی:
وعن جابر قال : كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمر الظهران نجني الكباث فقال : " عليكم بالأسود منه فإنه أطيب " فقيل : أكنت ترعى الغنم ؟ قال : " نعم وهل من نبي إلا رعاها ؟ "
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک موقع پر ) ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مقام مرالظہران میں تھے (جو مکہ کے قریب ایک جگہ ہے ) اور پیلو کے پکے پکے پھل جمع کر رہے تھے ، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اس کا جو پھل سیاہ ہو ، وہ لے لو ) کیونکہ وہ اچھا ہوتا ہے اور فائدہ بھی پہنچاتا ہے " ہم نے عرض کیا (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرائی ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں ! اور کونسا نبی ہے جس نے بکریاں نہیں چرائی ہیں ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرائی ہیں " اس سوال کا مطلب یہ تھا کہ پیلو کے پھل چونکہ ان لوگوں کی خاص خوراک و غذا ہے جو جنگل میں بود و باش رکھتے ہیں ، یا بکریاں چرایا کرتے ہیں اور اسی اعتبار سے وہی لوگ اس پھل کے اچھے برے کی تمیز رکھتے ہیں اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بکریاں چرائی ہیں ؟
اور کون سا نبی ہے جس نے بکریاں نہیں چرائی ہیں " اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے نبوت کا منصب کبھی بھی دنیا داروں ، بادشاہوں اور متکبر و مغرور لوگوں کے طبقہ کو عطاء نہیں فرمایا بلکہ دین و دنیا کے اس سب سے بڑے منصب کی ذمہ داری ہمیشہ ان لوگوں کے سپرد کی گئی جو بکر یاں چراتے تھے ، مفلس و نادار ہوتے تھے ، اور انتہائی تواضع و انکساری کے ساتھ دست کاری و کاریگری کا پیشہ اختیار کئے ہوتے تھے ، چنانچہ منقول ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام خیاطی کا کام کرتے تھے ، حضرت زکریا علیہ السلام نجاری کرتے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اجرت پر ، حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرایا کرتے تھے ، اور اس میں حق تعالیٰ کی مصلحت و حکمت یہ ہوتی تھی کہ طبقہ انسانی کے ان برگزیدہ ترین لوگوں کی پرورش و نمو حلال رزق کے ذریعہ ہو جو عام طور پر سخت محنت و مشقت ہی کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے عمل صالح کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر ہوں ، اور وہ زیادہ زیادہ نیک کام کریں اور خاص طور پر بکریاں چرانے میں ایک بڑا فائدہ یہ تھا کہ لوگوں سے یکسوئی اور حق تعالیٰ جل شانہ کے ساتھ خلوت کا موقع حاصل ہوتا نیز رعایا پروری کے طور طریقے اور کمزور و نادار لوگوں کے ساتھ شفقت و نرمی کا برتاؤ رکھنے کا سبق ملتا تھا ۔
چنانچہ ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ (ایک دن ) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ " موسیٰ(علیہ السلام) جانتے ہو ہم نے تمہیں نبوت کا منصب اعظم کیوں عطا کیا ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا " پروردگار ! تو ہی جانتا ہے ۔" اللہ تعالیٰ نے فرمایا " اس دن کو یاد کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم ودای الایمن میں بکریاں چرا رہے تھے ، اور ایک بکری بھاگ کھڑی ہوئی تھی تم اس کے پیچھے دوڑے جس کی وجہ سے تمہیں بہت زیادہ تکلیف و مشقت برداشت کرنا پڑی ، پھر جب تم نے اس بکری کو جالیا تو تم نے نہ اس بکری کو مارا اور نہ اس پر غیظ وغضب کا اظہار کیا بلکہ اس کے ساتھ شفقت نرمی کا برتاؤ کیا پھر اور اس کو مخاطب کرکے کہا کہ اوہ بچاری ! تو نے اپنے آپ کو بھی تکلیف و مصیبت میں مبتلا کیا اور مجھے بھی کلفت و تعب میں ڈالا ۔ جب ہم نے اس حیوان کے تئیں تمہاری یہ شفقت و رحم پروری دیکھی تو ہم پر ہماری رحمت متوجہ ہوئی کہ تمہیں نبوت سے سرفراز کیا اور اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ۔"