مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دکھلاوے اور ریاکاری کا بیان ۔ حدیث 1215

دانا شخص وہی ہے جو خواہشات نفس کو احکام الٰہی کے تابع کر دے

راوی:

وعن شداد بن أوس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الكيس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت . والعاجز من أتبع نفسه هواها وتمنى على الله . رواه الترمذي وابن ماجه

حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ " عقلمند وبہادر شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو (اللہ تعالیٰ کے حکم وفیصلہ، تقدیر وقضا اور اس کی رضا وخوشنودی کے تئیں) جھکا دے اور فرمان الٰہی کا مطیع و فرمانبردار بنا دے اور اس اجر و ثواب کے لئے اچھے عمل کرے جو موت کے بعد پائے گا۔ نیز احمق ونادان اور بزدل شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے تابع بنا دے (یعنی نفس جن حرام و مشتبہ چیزوں اور دنیاوی لذات و مرغوبات کا خواہشمند ہو، ان کو اختیار کر کے گویا اپنے آپ کو خواہش نفس کا اسیر بنا دے اور گناہوں میں مبتلا ہونے ، فرمان حق کے خلاف چلنے، عمل خیر اور توبہ واستغفار کی راہ اختیار نہ کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے اس بات کا متمنی اور آرزو مند ہو کہ وہ اس سے راضی ہو، اس کو بخش دے اور اس کو جنت میں داخل کرے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
نووی نے لکھا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اور دیگر علماء محدثین نے وضاحت کی ہے من دان نفسہ دراصل حاسبھا کے مفہوم میں ہے یعنی عقلمند وبہادر وہ شخص ہے جو اپنی دنیاوی زندگی میں اپنے قول وفعل اور اپنی حالت کا خود حساب کرے، پس اگر وہ دیکھے کہ اس کے اعمال واحوال اور کردار وگفتار پر نیکیوں کا غلبہ ہے تو اللہ کا شکر ادا کرے اور اگر اس کو برائیوں کا غلبہ معلوم ہو تو توبہ وانابت کے ذریعہ اپنی حالت سدھارنے کی طرف متوجہ ہو، برائیوں کا ازالہ کرے اور پچھلی زندگی میں جو عبادات واعمال صالحہ فوت ہو گئے ہیں ان کا تدارک کرے قبل اس کے کہ آخرت کے سخت عذاب ومواخذہ میں گرفتار کیا جائے۔ چنانچہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا یعنی اپنے نفس کا احساب کرو قبل اس کے کہ آخرت میں تمہارا محاسبہ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ) 59۔ الحشر : 18) یعنی نفس کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل آخرت کے لئے آگے کیا بھیجا ہے۔
حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ دانا مومن وہ ہے جو اپنے اندر اتنی طاقت ومضبوطی رکھے کہ اس کا نفس اپنی خواہشات کے فریب میں مبتلا نہ کر سکے ، اور نادان مومن وہ ہے جو اس درجہ کمزور نا تو اں ہو کہ اس کا نفس اس کو اپنی خواہشات کا اسیر بنا لے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ گناہ ومعصیت کی راہ کو ترک نہ کرنا، توبہ واستغفار اور عمل خیر کے ذریعہ اپنی زندگی کو پاکیزہ نہ بنانا اور اللہ و رسول کی مرضی کے خلاف چلنا اور پھر امید یہ (رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے کھول دے گا اور دین ودنیا کی فلاح و کامیابی سے نوازے گا نیز زبان سے یہ کہتے رہنا کہ میرا رب تو بڑا رحیم و کریم ہے، وہ مجھے بخش ہی دے گا اور جنت میں پہنچا دے گا دراصل نفس کا ایک ایسا فریب ہے جس کے ذریعہ شیطان گمراہی سے نکلنے نہیں دینا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ آیت (ماغرک بربک الکریم)۔ اور فرمایا آیت (نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ہو العذاب الالیم) ایک موقع پر یوں واضح فرمایا کہ آیت( اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ ) 7۔ الاعراف : 56) اور فرمایا آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اُولٰ ى ِكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 2۔ البقرۃ : 218)۔ ان آیتوں کا حاصل یہی ہے کہ عمل تو نہ کرنا، برائی کے راستہ کو تو نہ چھوڑنا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار ہونا لا حاصل ہے۔ سیدھا راستہ بس یہی ہے کہ برائی کے راستہ کو چھوڑ دیا جائے، اعتقادی وعملی زندگی کو دینی واخروی پاکیزگی وسلامتی کے سانچے میں ڈھال دیا جائے اور ہر عمل خیر کی راہ میں کوئی تقصیر و کوتاہی نہ کی جائے، اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار بھی رہے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے تو اس صورت میں رحمت الٰہی کا استحقاق نصیب ہو سکتا ہے۔
حضرت شیخ ابن عباد شاذلی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عارف باللہ علماء نے وضاحت کی ہے کہ اللہ کی رحمت کے تئیں وہ جھوٹی امید کہ جس پر ناروا اعتماد کر کے انسان عمل و عبادت کی راہ ترک کر دے اور وہ امید اس کو گناہ ومعصیت کی زندگی کا بیباک راہرو بنا دے، حقیقت میں امید نہیں ہے بلکہ نفس کا فریب آرزو اور شیطان کا دھوکا ہے۔
حضرت معروف کرخی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ " عمل کے بغیر جنت کی طلب گناہوں میں سے ایک گناہ ہے (خدا ترسی وپاکیزگی عمل کا " ذریعہ و تعلق اختیار کئے بغیر شفاعت کی امید فریب کی ایک قسم ہے اور اس ذات کی رحمت کا امیدوار ہونا کہ جس کی اطاعت فرمانبرداری نہ کرے بڑی جہالت وحماقت ہے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا۔ اللہ کے بندو۔ ان باطل آرزوؤں اور جھوٹی امیدوں سے دور رہو جو حماقت کی وادی ہے اور جس میں لوگ گرے ہوئے ہیں اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو محض اس کی آرزوؤں کے سہارے نہ دنیا میں کامیابی وکامرانی سے نوازا ہے اور نہ آخرت کی خیر وفلاح کا مستحق گردانا ہے۔
حضرت عمرو بن منصور رحمہ اللہ نے اپنے متعلقین میں سے ایک شخص کو لکھا تھا۔ نادان! تم اپنی عمر کی درازی کے آرزو مند ہو، اور اللہ تعالیٰ سے اس بات کے امید وار ہو کہ وہ تمہارے بدعملیوں کے باوجود تمہیں اپنی رحمت سے نوازے؟ ہوش میں آؤ، یہ کیا ٹھنڈا لوہا کوٹنے کی سعی میں مصروف ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں