دنیا میں مسافر کی طرح رہو
راوی:
وعن ابن عمر قال أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم ببعض جسدي فقال كن في الدنيا كأنك غريب أو عابر سبيل وعد نفسك في أهل القبور . رواه البخاري
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے جسم کے ایک حصہ (یعنی دونوں مونڈھوں) کو پکڑ کر فرمایا۔ تم دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم مسافر ہو یا راہ گیر ہو، اور تم اپنا شمار ان لوگوں میں کرو جو دنیا سے گزر گئے ہیں اور اپنی قبروں میں آسودہ خواب ہیں (یعنی تم مردوں کی مشابہت اختیار کرو کہ جس طرح وہ دنیا کی تمام چیزوں سے منہ موڑ کر ایک گوشہ میں پڑے ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی دنیاداری کے علائق سے اپنا دامن بنا کر نہایت سادگی اور یکسوئی کے ساتھ زندگی گزارو" ۔ (بخاری)
تشریح
میرک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس روایت کا بخاری کی طرف منسوب ہونا محل نظر ہے کیونکہ یہاں جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں وہ بعینہ ترمذی کے روایت کردہ ہیں اور بخاری نے اس حدیث کو جن الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے وہ اس سے مختلف ہیں۔
او عابر سبیل میں حرف او یا تو تنویع کے لئے ہے جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے اور یا یہ کہ یہاں یہ حرف بل کے معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے جو ترقی کے لئے آتا ہے، اس صورت میں پورے جملہ کا ترجمہ یوں ہوگا ۔ تم دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو، بلکہ راہ گیر ہو۔ اس طرح بات میں زیادہ زور پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس ارشاد گرامی کا مقصد جس مفہوم کو بیان کرنا ہے وہ زیادہ پر تاثیر انداز میں واضح ہوتا ہے کیونکہ مسافر تو پھر بھی کچھ دنوں کے لئے یا کچھ عرصہ کے لئے کہیں کہیں ٹھہر کر وہاں کی چیزوں میں کسی نہ کسی حد تک مشغول ہوتا ہے اور ان سے کچھ نہ کچھ تعلق اس کو ضرور رکھنا پڑتا ہے، لیکن جو شخص سر راہ گزر رہا ہوتا ہے وہ بس آگے کی طرف چلتا ہی رہتا ہے اس کو نہ تو اس راستے کی کسی چیز سے سروکار ہوتا ہے اور نہ ادھر ادھر کی مشغولیت میں اپنا وقت ضائع کر کے اپنے سفر میں رخنہ اندازی کو گوارا کرتا ہے۔
حدیث کے آخری جزء کی تشریح تھوڑی سی تفصیل کا تقاضہ کرتی ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں پہلے تو یہ جان لینا چاہئے کہ موت کی حقیقت کیا ہے؟ بدن سے روح کے تصرف کا منقطع ہو جانا، روح و بدن کے باہمی رشتہ کا ٹوٹ جانا اور بدن کا روح کے آلہ کار کی حیثیت سے باہر ہو جانا، موت کا مفہوم ہے! بدن کی موت سے روح معدوم و نابود نہیں ہو جاتی صرف اس کی وہ حیثیت وحالت بدل جاتی ہے جو بدن کے ساتھ تعلق رکھنے کی صورت میں اس کو حاصل ہوتی ہے مثلاً یہ بدن کی موت کے ساتھ اس کی بصارت اس کی سماعت اس کی گویائی اور اسی طرح ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضائے جسم کی وہ طاقتیں اس سے سلب کر لی جاتی ہیں جن کے ذریعہ وہ (روح) بدن پر اپنا تصرف ظاہر کرتی ہے، ایسے ہی اس کے تمام اہل وعیال، اقربا و آشنا، اور دوست وعزیز اس سے جدا کر دئیے جاتے ہیں، نیز دنیا کی وہ تمام چیزیں اس سے الگ کر دی جاتی ہیں، جن سے وہ اپنے بدن کے ساتھ تعلق رکھتی تھی جیسے گھر بار، اسباب وسامان، زمین وجائداد، فوج وحشم، لونڈی وغلام اور گھوڑے ودیگر چوپائے اور دیگر ضروری وغیر ضروری چیزیں، پس مردوں میں اپنا شمار کرنا اور ان کی مشابہت اختیار کرنا گویا اس مفہوم کا حامل ہے کہ انسان جسمانی علائق سے حتی الامکان قطع تعلق اختیار کر لے، جس کی صورت یہ ہے کہ اعضائے جسم پر سے روح کا وہ تصرف ختم کر دے جس کے پنجہ میں حرام و مکروہ امور کا ارتکاب ہوتا ہے اور اس میں یقین رکھے کہ دنیا کی جو بھی چیزیں میرے تصرف واختیار میں ہیں، ان سب کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے ان کی ملکیت سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور اس بات کو اس کی علامت سمجھے کہ اگر ان چیزوں میں سے کوئی چیز اس کے پاس سے جاتی رہے تو کوئی غم نہ ہو، اور کوئی چیز اپنے پاس آئے تو خوش نہ ہو، اسی طرح اپنے اہل و اولاد، عزیز واقا رب اور دوستوں وغیرہ سے تعلق محبت کے وہ جذبات منقطع کر لے جن کی وجہ سے حرام مکروہ چیزوں کا ارتکاب ہوتا ہے پس جس شخص نے اپنے آپ کو اس وصف سے متصف کر لیا وہ دنیا سے بے تعلقی میں گویا مردوں کے مشابہ ہو گیا، اور اس کا شمار آسودگان خاک کے حکم میں ہوگا۔ اس کے بعد اس شخص کی شان کے مناسب یہ بات ہو گی کہ وہ ان آداب و شرائط کو ملحوظ رکھے جن کے سبب اس کا مردوں کے مشابہ ہونا صحیح قرار پا سکے، مثلاً ایک تو یہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے ہر مطلوب سے دست کنارہ کش ہو جائے جیسا کہ موت کی صورت میں، تیسرے یہ کہ توکل کی راہ پر گامزن رہے یعنی دنیاوی اسباب و وسائل کی ناروا قید سے آزاد ہو جائے جیسا کہ موت کی صورت میں، چوتھے یہ کہ قناعت پر عامل رہے یعنی نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرے جیسا کہ موت کی صورت میں، پانچویں یہ کہ صرف اللہ کی طرف متوجہ رہے اور ماسوی اللہ کی طرف نظر نہ اٹھائے تاکہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی مطلوب ، کوئی محبوب اور کوئی مقصود نہ ہو جیسا کہ موت کی صورت میں، چھٹے یہ کہ صبر کی راہ اختیار کرے یعنی ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ نفس امارہ سے قطع تعلق کر لے جیسا کہ موت میں،
ساتویں یہ کہ رضا کے راستہ پر چلے یعنی اپنے نفس کی خوشنودی کے جال سے نکل کر حق سبحانہ وتعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے دائرے میں آ جائے، احکام ازلیہ کو بلاچوں و چرا تسلیم کرے اور اپنے تمام امور کو بغیر کسی اعتراض و منازعت کے حق تعالیٰ تدبیر و اختیار کے سپرد کر دے جیسا کہ موت کی صورت میں، آٹھویں یہ کہ ذکر سے غافل نہ رہے یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے ذکر میں اپنے دل اور اپنی زبان کو مشغول رکھے اور ماسوی اللہ کی یاد اور اس کے ذکر و خیال کی الجھن سے آزاد رہے جیسا کہ موت کی صورت میں، اور نویں یہ کہ مراقبہ کو اختیار کرے یعنی ہر طرح کی قوت وسطوت اور ہر مقتدر طاقت سے بے نیاز ہو کر اور اس کو چھوڑ کر بس احکم الحاکمین کی طاقت و قدرت کا دھیان رکھے اور اس کی طاقت اور قدرت کو اپنے تمام امور کا مالک و متصرف جانے جیسا کہ موت کی صورت میں، پس یہ صفات و کیفیات پیدا ہو جائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ مردوں کی مشابہت حاصل ہو گئی اور اہل قبور میں شمار کرانے کا حکم پورا ہو گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد وعد نفسک من اہل القبور کا یہی مفہوم ہے اور یہی معنی اس حدیث کے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے موتوا قبل ان تموتوا موت آنے سے پہلے موت کو اختیار کر لو، چنانچہ ایک موت تو وہ ہے جو اچانک روح وبدن کے باہمی رشتہ کو یکسر منقطع کر دیتی ہے اور ایک موت وہ ہے جس کو انسان مذکورہ بالا صفات کی صورت میں اختیار کر کے اپنے نفس امارہ کو کچل ڈالتا ہے، اور یہی موت " اختیاری موت" کہلاتی ہے۔