انسان، اس کی موت اور اسکی آرزوؤں کی صورت مثال
راوی:
عن عبد الله قال خط النبي صلى الله عليه وسلم خطا مربعا وخط خطا في الوسط خارجا منه وخط خططا صغارا إلى هذا الذي في الوسط من جانبه الذي في الوسط وفقال هذا الإنسان وهذا أجله محيط به وهذا الذي هو خارج أمله وهذه الخطوط الصغار الأعراض فإن أخطأه هذا نهسه هذا وإن أخطأه هذا نهسه هذا . رواه البخاري
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے سمجھانے کے لئے چار خطہ کھینچ کر ایک مربع بنایا، پھر اس مربع کے درمیان ایک اور خط کھینچا جو مربع سے باہر نکلا ہوا تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درمیانی خط کے اس حصہ کی طرف جو (مربع کے) خطوں کے درمیان تھا، چھوٹے چھوٹے کئی خطوط کھینچے اور پھر فرمایا) اس خاکہ کو اچھی طرح سمجھ لو۔ درمیانی خط کا یہ حصہ کہ مربع کے خطوں کے درمیان ہے ، گویا انسان ہے اور یہ خط کہ جس نے چاروں طرف سے مربع بنا رکھا ہے اس انسان کی موت ہے (یعنی مربع کے چاروں خطوط گویا اس کی موت کا وقت اور اس کی عمر کی آخری حد ہے جس نے چاروں طرف سے اس کو گھیر رکھا ہے) اور درمیانی خط کہ یہ حصہ کہ جو مربع سے باہر نکلا ہوا ہے، اس انسان کی (وہ) آرزو اور تمنا ہے (جس کے بارے میں وہ یہ خیال رکھتا ہے کہ میں موت آنے سے پہلے اس کو حاصل کر لوں گا) حالانکہ وہ ایک بے بنیاد خیال میں مبتلا ہے کیونکہ اس کی آرزوؤں کی تکمیل سے زیادہ قریب ہے اور درمیانی خط کے اندرونی حصے پر جو یہ چھوٹے چھوٹے خطوط ہیں وہ عوارض(یعنی آفات وحادثات جیسے بھوک پیاس اور افلاس وبیماری وغیرہ) ہیں کہ جو انسان پر ہر طرف سے مسلط رہتے ہیں اور اگر وہ عوارض اپنا کام کر جاتے ہیں تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے پس اگر وہ انسان کسی ایک حادثہ و عارضہ سے بچ جاتا ہے تو دوسرا حادثہ وعارضہ گھیر لیتا ہے، اگر اس حادثہ وعارضہ سے بھی بچ نکلتا ہے تو پھر تیسرا حملہ کر دیتا ہے غرضیکہ متعدد حوادث وعارضات اس کی تاک میں رہتے ہیں جن سے وہ یکے بعد دیگرے دوچار ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ موت آ کر اس کا کام تمام کر دیتی ہے۔ (بخاری)
تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انسان دور دراز کی امیدیں اور آرزوئیں رکھتا ہے اور اس وہم میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کی وہ امیدیں اور آرزوئیں کبھی نہ کبھی پوری ہوں گی۔ حالانکہ حقیقت میں وہ ان امیدوں اور آرزوؤں سے بہت دور اور اپنی موت سے بہت قریب ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی امیدوں اور آرزؤں کی منزل تکمیل تک پہنچنے سے پہلے موت کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔