آرزو اور حرص کا بیان
راوی:
امل کے معنی ہیں امید رکھنا اور حرص کے معنی ہیں لالچ کرنا یا آرزو و ارادے کو دراز وسیع کرنا، " حرص" کا تعلق نیک آرزوؤں اور اچھے ارادوں سے بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے۔ آیت (ان تحرص علی ہداہم) اور لفظ حرص کا اطلاق نفسانی خواہشات کے زیادتی اور دنیاوی چیزوں کے لالچ پر بھی ہوتا ہے جو ایک بری چیز ہے، چنانچہ قاموس میں لکھا ہے کہ بدترین حرص یہ ہے کہ تم اپنا حصہ بھی حاصل کر لو اور غیر کے حصے کی بھی طمع رکھو۔ حاصل یہ کہ نیک امور جیسے حصول علم، اللہ کے دین کی سربلندی اور اچھے اعمال، اس میں حریص ہونا یعنی آرزؤں اور ارادوں کو دراز و وسیع کرنا، متفقہ طور پر علماء کے نزدیک بہت اچھی بات ہے، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ طوبی لمن طال عمرہ وحسن عملہ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی عمر کے آخر میں اس آرزو اور ارادہ کا اظہار فرمایا تھا کہ اگر میں اگلے سال تک جیتا رہا تو (محرم کی) نویں تاریخ کو بھی روزہ ضرور رکھوں گا اس کے برخلاف جس آرزو و ارادے کی درازی کا تعلق دنیاوی خواہشات نفس جیسے مال و دولت جمع کرنے اور جاہ و منصب کی طلب سے ہو تو وہ بہت بری بات ہے۔
جہاں تک عنوان کے پہلے لفظ ' امل" کا تعلق ہے تو اس سے مراد دنیاوی امور (یعنی خوش حال زندگی اور محض دنیاوی بہبودی وترقی وغیرہ) کی امیدوں ، تمناؤں اور خیالی منصوبوں کی درازی و وسعت میں اس حد تک مبتلا ہو جانا ہے کہ موت کے لئے مستعد رہنے اور توشہ آخرت تیار کرنے سے غافل ہو جائے۔ اور یہ شان صرف انہی لوگوں کی ہو سکتی ہے جو دین و آخرت سے غافل ، اللہ فراموش اور دنیاوی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھنے والے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
آیت (ذرہم یأکلوا ویتمتعوا ویلہہم الامل)، یعنی آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ان کافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے کہ (وہ خوب) کھا لیں اور چین اڑا لیں اور خیالی منصوبے (یعنی دنیا بھر کی آرزوئیں اور تمنائیں) ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں۔