مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آرزو اور حرص کا بیان ۔ حدیث 1186

راحت طلبی اور تن آسانی بندگان خاص کی شان کے منافی ہے

راوی:

وعن معاذ بن جبل أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بعث به إلى اليمن قال إياك والتنعم فإن عباد الله ليسوا بالمتنعمين . رواه أحمد

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قاضی بنا کر یمن بھیجا تو ان کو یہ نصیحت بھی فرمائی کہ " اپنے آپ کو راحت طلبی اور تن آسانی سے بچانا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندگان خاص آرام و آسائش کی زندگی نہیں گزارتے" ۔ (احمد)

تشریح
تنعم کا مفہوم ہے نفسانی خواہشات کی تکمیل میں زیادہ سے زیادہ اہتمام و انصرام کرنا، بہت زیادہ دنیاوی لذتوں اور نعمتوں کے درمیان رہنا اور کھانے پینے اور طبیعت و نفس کی مرغوبات کا حریص ہونا حاصل یہ کہ راحت طلبی وتن آسانی کی چیزوں میں پڑنا اور عیش و عشرت کی زندگی اختیار کرنا، کافر و فاجر، غافل ونادان اور جاہل لوگوں کا خاصہ ہے، بندگان خاص کو ایسی زندگی سے کیا سروکار! چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (ذرہم یأکلوا ویتمتعوا ویلہہم الامل فسوف یعلمون)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے کہ وہ خوب کھا لیں اور چین اڑا لیں، اور خیالی منصوبے دنیا بھر کی آرزوئیں اور تمنائیں ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں ان کو ابھی حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے۔ اور فرمایا۔ آیت (والذین کفروا یتمتعون ویأکلون کما تاکل الانعام والنار مثوی لہم) دوسری آیت (انھم کانوا قبل ذالک مترفین)۔ اور جو لوگ کافر ہیں وہ عیش کر رہے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں اور جہنم ان لوگوں کا ٹھکانہ ہے۔ ایک جگہ یوں فرمایا گیا ہے وہ کافر لوگ اس سے قبل دنیا میں بڑی خوشحال اور چین کی زندگی بسر کرتے تھے۔

یہ حدیث شیئر کریں