مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آرزو اور حرص کا بیان ۔ حدیث 1185

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرغوب دنیاوی چیزیں

راوی:

وعن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حبب إلي الطيب والنساء وجعلت قرة عيني في الصلاة . رواه أحمد والنسائي . وزاد ابن الجوزي بعد قوله حبب إلي من الدنيا

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔" خوشبو اور عورتیں میرے لئے پسندیدہ بنائی گئی ہیں اور میرا قلبی سکون و نشاط، نماز میں رکھا گیا ہے" (احمد، نسائی) اور ابن جوزی نے اس ارشاد میں حبب الی کے بعد من الدنیا کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں۔

تشریح
" میرا قلبی سکون و نشاط نماز میں رکھا گیا ہے" کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو جو ذوق و لذت، استغراق وحضور اور راحت و سرور نماز میں حاصل ہوتا ہے وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی عبادت میں میسر نہیں ہوتا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نماز کے تئیں اس لذت بے خودی اور اسی ذوق حضور کے نشاط کا یہ اثر تھا کہ جونہی نماز کا وقت آتا، تو نہایت شوق کے عالم میں فرماتے ارحنا یا بلال! جلدی اٹھو اور اذان کہو، تاکہ میں نماز پڑھنے لگوں اور دوسرے امور کی مشغولیت و فکرات سے دامن چھڑا کر مناجات حق میں مشغول ہو جاؤں۔
لفظ قرۃ یا تو قر سے مشتق ہے جس کے معنی قرار و ثبات کے ہیں اور چونکہ جب نگاہ کو محبوب کا دیدار نصیب ہو جاتا ہے تو نہ صرف نظر کو قرار مل جاتا ہے کہ نگاہیں پھر کسی دوسرے کو دیکھنے کی روادار نہیں ہوتیں، بلکہ دل و دماغ کو بھی راحت واطمینان کی دولت مل جاتی ہے، جس طرح کہ محبوب کا دیدار نہ ہونے کی صورت میں نظریں پریشان اور دل بے قرار رہتا ہے، لہٰذا نگاہ ودل کے اسی قرار وسکون کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے " قرۃ عینی" سے تعبیر فرمایا۔ یا کہ یہ لفظ قرۃ اصل میں قر سے مشتق ہے، جس کے معنی اس ٹھنڈک اور خنکی و لذت کے ہیں جو کسی عزیز ترین چیز اور محبوب کے دیدار اور مشاہدہ کے سرور سے آنکھوں کو حاصل ہوتی ہے، چنانچہ جس طرح کسی دشمن اور قابل نفرت چیز کو دیکھ کر آنکھوں میں چنگاریاں سلگتی معلوم ہوتی ہیں اسی طرح اپنی کسی عزیز ترین چیز اور محبوب کو دیکھ کر آنکھوں میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے ، اسی لئے بیٹے کو " قرۃ العین" کہا جاتا ہے۔
روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ابن جوزی نے اس حدیث کو جس طرح نقل کیا ہے اس میں شروع کا جملہ اس طرح ہے حبب الی من الدنیا الطیب الخ (یعنی دنیا کی جن چیزوں کو میرے لئے پسندیدہ بنایا گیا ہے، ان میں سے ایک تو خوشبو ہے اور دوسری عورت ہے) تاہم یہ بات واضح رہے کہ حدیث کے وہ الفاظ کہ جن کو امام احمد اور امام ترمذی نے متفقہ طور پر نقل کیا ہے، زیادہ صحیح وہی ہیں جو اوپر متن میں نقل کئے گئے ہیں چنانچہ طبرانی نے اپنے تینوں معاجم میں ، خطیب نے تاریخ بغداد میں، اور ابن عدی نے کامل میں اس روایت کو انہی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے، نیز حاکم نے بھی اپنی مستدرک میں اسی طرح نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے البتہ ان کی روایت میں جعلت کا لفظ نہیں ہے۔ ویسے نسائی کی ایک روایت میں بھی من الدنیا کا لفظ ایک دوسری وجہ سے منقول ہے ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض ناقلین حدیث کے ہاں اس روایت میں حبب الی من الدنیا کے بعد " ثلث" کا جو ایک اور لفظ نقل کیا جاتا ہے، تو جیسا کہ سخاوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ تحقیق تفتیش کے باوجود یہ لفظ حدیث کی کسی کتاب میں اس روایت کے دوران نہیں ملتا، البتہ کتاب احیاء العلوم اور کشاف کی تفسیر سورت آل عمران میں یہ لفظ ضرور ملتا ہے، شیخ ابن حجر اور شیخ ولی الدین عراقی نے بھی یہی لکھا ہے کہ حدیث کی جس کتاب میں بھی یہ روایت ہے ثلث کا لفظ کہیں منقول نہیں ہے، لہٰذا یہ حدیث یہاں جن الفاظ کے ساتھ نقل کی گئی ہے اس کے مفہوم میں کوئی اشکال واقع نہیں ہوتا، اسی طرح ان دونوں لفظوں یعنی " من الدنیا " اور " ثلث" میں سے کوئی بھی ایک لفظ شامل روایت ہو تب بھی مفہوم بالکل واضح رہتا ہے، ہاں! اگر یہ دونوں لفظ ایک ساتھ شامل روایت ہوں تو اس صورت میں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ " نماز" پر " دنیاوی چیز" کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے کیونکہ نماز دنیاوی امور میں سے نہیں ہے؟ لہٰذا جو ناقلین حدیث ان دونوں لفظوں کے ساتھ اس روایت کو بیان کرتے ہیں ان کی طرف سے اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ " دنیا " سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد اس عالم کی حیات ہے ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گویا یہ فرمایا کہ اس عالم میں تین چیزیں میری پسندیدہ ہیں جن میں سے دو چیزیں تو طبعی اور دنیاوی امور سے تعلق رکھتی ہیں یعنی خوشبو اور عورت، اور تیسری چیز یعنی نماز کا تعلق دینی امور سے ہے۔
آخر میں ایک بات اور ، حدیث میں " صلوۃ" کا لفظ تقریباً تمام علماء کے نزدیک " نماز" ہی پر محمول ہے، لیکن بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں " صلوۃ" کے لفظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر (درود و سلام) مراد ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں