مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آرزو اور حرص کا بیان ۔ حدیث 1176

ذات رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہو تو فقر و فاقہ کی زندگی اختیار کرو

راوی:

وعن عبد الله بن مغفل قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال إني أحبك . قال انظر ما تقول . فقال والله إني لأحبك ثلاث مرات . قال إن كنت صادقا فأعد للفقر تجفافا للفقر أسرع إلى من يحبني من السيل إلى منتهاه . رواه الترمذي وقال هذا حديث حسن غريب

حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (بہت زیادہ) محبت رکھتا ہوں! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو؟ یعنی اچھی طرح سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو، کیونکہ تم ایک بہت بڑی چیز کا دعویٰ کر رہے ہو، ایسا نہ ہو کہ بعد میں اپنی بات پر پورا نہ اتر سکو۔ اس شخص نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ اور تین بار اس جملہ کو ادا کیا! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم میری محبت کے دعوے میں سچے ہو تو پھر فقر کے لئے پاکھر تیار کر لو کیونکہ جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے اس کو فقر و افلاس اس پانی کے بہاؤ سے بھی زیادہ جلد پہنچتا ہے جو اپنے منتہا کی طرف جاتا ہے" اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
" تجفاف" کے معنی ہیں " پاکھر" اور پاکھر اس آہنی جھول کو کہتے ہیں جو میدان جنگ میں ہاتھی گھوڑے پر ڈالی جاتی ہے تاکہ ان کا جسم زخمی ہونے سے بچا رہے جیسا کہ زرہ ، سوار سپاہی کے جسم کو نیز و تلوار وغیرہ کے زخم سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہاں حدیث میں" پاکھر" کے ذریعہ " صبر و استقامت" کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جس طرح پاکھر ہاتھی گھوڑے کے جسم کو چھپاتا ہے۔ اسی طرح صبر و استقامت اختیار کرنا، فقر و فاقہ کی زندگی کا سرپوش بنتا ہے حاصل یہ کہ صبر و استقامت کی راہ پر بہر صورت گامزن رہو، خصوصا اس وقت جب کہ فقر و افلاس تمہاری زندگی کو گھیر لے تاکہ تمہیں مراتب و درجات کی بلندی و رفعت نصیب ہو۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے پوری طرح سرشار ہوتا ہے اس کو فقر و فاقہ کا جلد پہنچنا اور اس پر دنیاوی آفات و بلاؤں اور سختیوں کا کثرت سے نازل ہونا ایک یقینی امر ہے کیونکہ منقول ہے کہ دنیا میں جن لوگوں کو سب سے زیادہ آفات شدائد کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ انبیاء ہیں ان کے بعد درجہ بدرجہ ان لوگوں کا نمبر آتا ہے جو عقیدہ و عمل کے اعتبار سے اعلیٰ مرتبہ کے ہوتے ہیں پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی انہی انبیاء میں سے تھے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص پر واضح فرمایا کہ اگر واقعتا تم میری محبت رکھو گے تو میرے تئیں تمہاری محبت جس درجہ کی ہو گی اسی درجہ کی دنیاوی سختیوں اور پریشانیوں کا تمہیں سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ اصول ہے المرء مع من احب (یعنی جو شخص جس کو دوست رکھتا ہے اسی جیسی حالت میں رہتا ہے)
حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس ارشاد " فقر کے لئے پاکھر تیار کر لو " کے ذریعہ بطور کنایہ اس امر کی تلقین فرمائی کہ فقر و فاقہ کے وقت صبر کی راہ پر چلنے کے لئے تیار رہو کیونکہ یہ صبر ہی ہے جو فقر افلاس کی آفتوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنے کی طاقت بہم پہنچاتا ہے، دینی و دنیاوی ہلاکت تباہی سے محفوظ رکھتا ہے ، جزع و فزع اور شکوہ شکایت کی راہ سے دور رکھتا ہے اور غضب الٰہی سے بچاتا ہے حضرت شیخ آگے فرماتے ہیں کہ " اس حدیث سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ فقر و فاقہ کی زندگی اختیار کئے بغیر اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرز حیات پر عمل پیرا ہوئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دعویٰ بالکل ناروا اور جھوٹ ہے۔ کیونکہ حقیقت میں اسوہ نبوی کی اتباع اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور محبوب کی اتباع وپیروری کے بغیر محبت کا دعویٰ درست ہو ہی نہیں سکتا، ان المحب لمن یحب مطیع، تاہم واضح رہے کہ حب نبی کا یہ سب سے اعلی مرتبہ ہے کہ کسی مسلمان کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حیات کی کامل اتباع کو اپنا شیوہ بنا لینا اس بات کی علامت ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تئیں دعویٰ محبت میں بالکل سچا اور درجہ کمال کا حامل ہے۔ اگرچہ " محبت" کی حقیقت و ماہیت یہ ہے کہ انسان کا کسی کی طرف اندر سے کھنچنا، اور اس کے دل کا اس محبوب کی خوبیوں ، اس کی ذات وصفات کی تحسین اور اس کی شکل وصورت اور عادات واطوار کی تعریف وتوصیف سے معمور ہو جانا کہ وہ اپنے محبوب کو سب سے اچھا دیکھنے اور سب سے اچھا جاننے لگے۔ مگر جیسا کہ پہلے بتایا گیا تکمیل محبت کا انحصار، محبوب کی کامل اتباع اور پیروی پر ہے، اگر باطنی تعلق ومحبت کے ساتھ عمل واتباع کی دولت بھی نصیب ہو تو اصل اور کامل محبت وہی کہلائے گی ورنہ محض دل میں محبت کا ہونا اور زبان سے اس کا اعتراف واقرار بھی کرنا، مگر عمل واتباع کی راہ میں غفلت و کوتاہی کا شکار ہونا، محبت کے ناقص ہونے کی دلیل ہے، جیسا کہ عمل کے بغیر ایمان درجہ تکمیل تک نہیں پہنچاتا۔

یہ حدیث شیئر کریں