مال کی کمی درحقیقت بڑی نعمت ہے
راوی:
وعن محمود بن لبيد أن النبي صلى الله عليه وسلم قال اثنتان يكرههما ابن آدم يكره الموت والموت خير للمؤمن من الفتنة ويكره قلة المال وقلة المال أقل للحساب . رواه أحمد
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ " دو چیزیں ایسی ہیں جن کو ابن آدم (انسان) ناپسند کرتا ہے (اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے وہ دونوں چیزیں بہت اچھی ہیں چنانچہ) انسان ایک تو موت کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ مومن کے لئے موت فتنہ سے بہتر ہے، دوسرے مال و دولت کی کمی کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کی کمی کا موجب ہے" ۔ (احمد)
تشریح
" فتنہ " سے رماد ہے کفر و شرک، اور گناہوں میں گرفتار ہونا، ظالم و جابر لوگوں کا ایسے کام کرنے پر مجبور کرنا جو اسلامی عقائد و تعلیمات کے خلاف ہوں اور ایسے حالات سے دوچار ہونا جن سے دین و آخرت کی زندگی مجروح ہوتی ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی اور زندہ رہنے کی تمنا تو اسی صورت میں خوب ہے جب کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے طاعات و عبادات کی توفیق عمل حاصل رہے، راہ مستقیم پر ثابت قدم نصیب ہو، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس دنیا سے ایمان کی سلامتی کے ساتھ رخصت ہو۔ اگر یہ چیزیں حاصل نہ ہوں اور ایمان کی سلامتی نصیب نہ ہو تو پھر یہ زندگی کس کام ؟ ظالم و جابر لوگوں کی طرف سے جبر و اکراہ کی صورت میں اگرچہ دل ، ایمان ، عقیدہ پر قائم رہے مگر زبان سے ایسی بات کا ادا ہونا کہ جو ایمان عقیدہ کے مناسب و لائق نہیں ہے، یہ بھی ایک " فتنہ" ہی ہے ہاں اگر فتنہ کا تعلق کسی اور طرح کے دنیاوی ابتلاء و مصائب، زندگی کی سختیوں اور نفس کی مشقت شدائد سے ہو تو اسی صورت میں زندگی سے نفرت اور موت کی تمنا درست نہیں ہوگی کیونکہ ایسا فتنہ گناہوں کے کفارہ اور اخروی درجات کی بلندی و رفعت کا سبب ہوتا ہے۔
وقلۃ المال اقل للحساب ، کا مطلب یہ ہے کہ دنیاوی مال و دولت کی کمی، عذاب سے بعید تر اور ہر مسلمان کے لئے بہتر ہے۔ لہٰذا جو مسلمان تنگدست و غریب ہو اس کو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مال و دولت کی فراوانی کے وبال کی وجہ سے آخرت میں پیش آئیں گی۔
حضرت شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ نے اس موقع پر بڑی حکمت آمیز بات کہی ہے، انہوں نے ہر طاب حق کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ عزیز من! یہ سب ایمان کی شاخیں ہیں ، جو شخص شارع علیہ السلام کے ارشادات کے مطابق ایمان کو صحیح درست رکھتا ہے وہ یقیناً جانتا ہے کہ شارع نے جو کچھ فرمایا ہے وہ برحق اور عین صداق ہے، اور اگر وہ شخص عقل سلیم اور صحیح تجربہ رکھتا ہو تو وہ اسی دنیا میں بھی جان لیتا ہے کہ مال و دولت کی فراوانی، اور اس مال و دولت کو حاصل کرنے اور جمع کرنے ، نیز اس کے ساتھ تعلق و محبت رکھنے کے سلسلے میں جن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس قدر ذلت و خواری کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اور جتنی زیادہ محنت و مشقت اور ہر طرح کی ذلت و خواری سے بچنے ہی کا نہیں بلکہ) نفس کی پاکیزگی و صفائی اور اخروی حساب و عذاب سے بچنے نیز درجات کی بلندی و رفعت کا انحصار اس بات پر ہے کہ مال و دولت کی کثرت سے اپنا دامن بچایا جائے اس سے قطع کر کے اور قدر کفایت پر قناعت کر کے عزت نفس اور اخلاق و کردار کی بلندی و استقامت کو اختیار کیا جائے۔