کمزور ونادار مسلمانوں کی برکت
راوی:
وعن أبي الدرداء عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ابغوني في ضعفائكم فإنما ترزقون أو تنصرون بضعفائكم . رواه أبو داود
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم لوگ مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ تمہیں رزق کا دیا جانا یا یہ فرمایا کہ تمہیں اپنے دشمن کے مقابلہ پر مدد کا ملنا انہی لوگوں کی برکت سے ہے جو تم میں کمزور ہیں" ۔ (ابو داؤد)
تشریح
کمزور لوگوں سے مراد فقراء و مساکین اور نادار لوگ ہیں اور ان میں تلاش کرنے کا مطلب ، ان لوگوں کی مدد و اعانت اور خبر گیری کے ذریعہ ان کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنا ہے۔ یا کمزور لوگوں سے مراد مظلوم ہیں کہ اگرچہ وہ دولتمند ہی کیوں نہ ہوں اور مطلب ظلم کے پنجہ سے نکلنے میں ان کی ہر طرح کی مدد کرنا ہے۔ حاصل یہ کہ اس ارشاد گرامی ذریعہ کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اگر تم لوگ میری رضا مندی و خوشنودی کے طلب گار ہو تو اپنی مدد و اعانت اور حسن سلوک کے ذریعہ ان لوگوں کی خوشنودی حاصل کرو جو تم میں کمزور نادار ہیں۔
او تنصرون میں لفظ او تنویع کے لئے ہے، اور اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں او کے بجائے حرف واؤ ہے، تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ یہاں حرف او کے ذریعہ راوی کے شک کو ظاہر کرنا مقصود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یا تو لفظ ترزقون فرمایا تھا یا لفظ تنصرون چنانچہ اوپر ترجمہ میں اس احتمال کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
" انہی لوگوں کی برکت سے ہے جو تم میں کمزور ہیں " کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ جو کمزور و نادار نظر آتے ہیں اور ہر طرح کی دنیاوی طاقت و حیثیت سے خالی معلوم ہوتے ہیں، ان کا وجود پوری کائنات کے لئے خیر و برکت کا باعث اور ان کے ساتھ احسان و حسن سلوک تمام لوگوں کی بھلائی و بہتری کا ضامن ہوتا ہے کیونکہ ان لوگوں میں وہ بڑے بڑے اقطاب و اوتاد بھی ہوتے ہیں جو اگرچہ دنیاداروں کی نظر میں اپنی اصل حیثیت کے ساتھ متعارف نہیں ہوتے مگر حقیقت میں سارے عالم کا نظم کائنات انہی کی وجہ سے استوار ہوتا ہے بلکہ بعض حالات میں مختلف علاقوں اور آبادیوں کا نظم و انصرام روحانی طور پر اللہ کی طرف سے ان کے سپرد ہوتا ہے ان لوگوں کا در و بست ان کے ہاتھ میں رہتا ہے۔
ابن ملک رحمہ اللہ نے اس حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذکورہ ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ (اگر مجھ کو پانا چاہتے ہو تو ) مجھے اپنے کمزور نادار لوگوں میں تلاش کرو بایں طور کہ تمہارے اوپر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں، ان کی محافظت کرو اور ان کی دل جوئی میں مشغول رہو کیونکہ میں ان کے ساتھ بعض اوقات تو جسمانی طور پر ہوتا ہوں دل و جان سے تمام اوقات میں ہوتا ہوں لہٰذا جس شخص نے ان کا احترام کیا اس نے گویا میرا اکرام و احترام کیا اور جس شخص نے ان کو (خواہ جسمانی خواہ روحانی طور پر) تکلیف و ایذاء پہنچائی اس نے گویا مجھ کو تکلیف و ایذاء پہنچائی، اس کی تائید اس حدیث قدسی سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، حدیث(من عادلی ولیا فقد بارزنی بالحرب) یعنی جس شخص نے میرے ولی کے ساتھ عداوت دشمنی اختیار کی وہ گویا مجھ سے لڑنے کے لئے میدان میں آ گیا۔