اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فقر کی مثال
راوی:
وعن عائشة قالت ما شبع آل محمد من خبر الشعير يومين متتابعين حتى قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم . متفق عليه
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت (یعنی ازواج مطہرات اور متعلقین) نے دو روز مسلسل جو کی روٹی سے پیٹ بھرا ہو (چہ جائیکہ گیہوں کی روٹی سے) یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے" (بخاری ومسلم)
تشریح
دو روز مسلسل سے یہ واضح ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کا معمول یہی تھا کہ اگر ایک دن پیٹ بھر کر کھایا تو دوسرے دن بھوکے رہے، اور یہ اس وجہ سے تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوشحالی و ترفہ کی زندگی پر فقر و افلاس کی زندگی کو ترجیح دی تھی، اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا بھر کے خزانوں کی پیش کش ہوئی اور حکم ہوا اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں تو مکہ کے پہاڑوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے سونے میں تبدیل کر دیا جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا بھر کے خزانوں اور سونے کے پہاڑوں کو تبدیل کرنے کے بجائے فقر اور تنگدستی ہی کو اختیار کیا اور فرمایا کہ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن پیٹ بھروں اور ایک دن بھوکا رہوں، تاکہ جس دن پیٹ بھروں اس دن اللہ کا شکر ادا کروں اور جس دن بھوکا رہوں اس دن صبر کروں۔
مذکورہ بالا حدیث سے بعض لوگوں کے اس قول کی تردید ہو جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی کے آخری حصہ میں غنی و مالدار ہو گئے تھے، کیونکہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی آخری عمر میں واقعتا غنی ہو گئے تھے تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس کہنے کے کیا معنی ہوں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک یہی معمول رہا کہ انہوں نے کبھی مسلسل دو دن تک جو کی روٹی سے پیٹ نہیں بھرا؟ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ جب آخری زمانہ نبوی میں اسلام کو طاقت اور غلبہ ملا اور مجاہدین اسلام نے مختلف علاقوں کو فتح کیا تو اس صورت میں مال غنیمت کا مقررہ حصہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ملا، اور تھوڑا بہت مال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتارہا مگر روایات صحیحہ شاہد ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مال کو بھی اپنے پاس کبھی نہیں رکھا، بلکہ جس طرح آتا اسی طرح اس کو اپنے پوردگار کی خوشنودی کی راہ میں خرچ کر دیتے اور خود ہمیشہ کی طرح خالی ہاتھ رہ جاتے ، البتہ دل کا غنا اور بڑھ جاتا، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت یہ تھی کہ مسلسل کئی کئی راتیں بھوک میں گزار دیتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت کو رات کا کھانا میسر نہیں ہوتا تھا اور وقتا فوقتا کھانا میسر ہونے کی صورت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دسترخوان پر عام طور سے جس چیز کی روٹی ہوتی تھی وہ جو تھا۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہمارے زمانہ کے غریب و نادار لوگوں اور فقراء میں سے کوئی بھی شخص اتنی سخت زندگی نہ تو گزاتا ہے اور نہ گزار سکتا ہے جتنی سخت زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزارتے تھے، اور یہ شان اس ذات گرامی کی تھی جو نہ صرف افضل البشر بلکہ افضل الانبیاء ہے جس کے چشم و ابرو کے اشارے پر دنیا بھر کی نعمتیں اس کے قدموں میں آ سکتی تھیں۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس طرز زندگی میں غریب و نادار مسلمانوں کے لئے بڑی تسلی و اطمینان کا سامان پوشیدہ ہے۔
واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس قدر فقر و افلاس کی زندگی گزارنا اور بھوک کی صعوبت کو برداشت کرنا کوئی اضطرار و مجبوری کے درجہ کی چیز نہیں تھی بلکہ یہ اپنے قصد و اختیار کا نتیجہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ دنیا کی لذات اور نعمتوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے، قوت لایموت پر قناعت کرتے اور اپنی اور اپنے اہل بیت کی ضروریات پر فقراء و مساکین اور دیگر ضرورت مندوں کی ضروریات کو ترجیح دے کر ایثار نفس پر عمل پیرا تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنی سخت زندگی گزارتے تھے۔