مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آرزو اور حرص کا بیان ۔ حدیث 1155

فقراء کی فضیلت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معاشی زندگی کا بیان

راوی:

" فقراء" فقیر کی جمع ہے جس کے معنی ہی مفلس، محتاج، غریب اور " فضیلت" سے مراد اجر و ثواب کی کثرت ہے۔ لہٰذا فقراء کی فضیت کے بیان کا مطلب ان احادیث کو نقل کرنا ہے جن سے یہ واضح ہوگا کہ جو لوگ اپنی غربت و افلاس اور محتاجگی کی وجہ سے اپنی اور اپنے متعلقین کی معاشی زندگی کی سختیوں کو صبر و سکون کے ساتھ جھیلتے ہیں اور تمام مشکلات کا مقابلہ نہایت عزم و استقلال کے ساتھ کرتے ہوئے توکل و قناعت اختیار کرتے ہیں اور تقدیر الٰہی پر راضی و شاکر رہتے ہیں ان کو کتنا زیادہ اجر و ثواب ملتا ہے اور وہ آخرت میں کتنا بڑا درجہ پائیں گے۔
" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معاشی زندگی' سے مراد آپ کے کھانے پینے، رہن سہن اور بسر اوقات کا وہ معیار اور طور طریقہ ہے جو غرباء اور فقراء کا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ جس کو کفات (بقدر ضرورت) کہا جا سکتا ہے، عنوان بالا میں " فقراء کی فضیلت" اور " حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معاشی زندگی" کو ایک ساتھ ذکر کرنے اور دونوں سے متعلق احادیث و مضمون کو ایک باب میں نقل کرنے میں جو خاص حکمت ہے وہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اکثر انبیاء اولیاء کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معیار زندگی اور بسر اوقات بھی غرباء و فقراء کی طرح تھا، یعنی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشحال زندگی اختیار کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اپنی زندگی اس طرح بسر کرتے تھے جس طرح کوئی غریب و مفلس شخص بسر کرتا ہے اور اپنے متعلقین کی کفالت اسی تنگی اور سخت کوشی و جانکاہی کے ساتھ کرتے تھے جو غریب و نادار لوگوں کا معمول ہے، چنانچہ غریب و نادار مومن کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے یہی بات بہت کافی ہے۔
واضح رہے کہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ صبر و رضا اختیار کرنے والا غریب و مفلس سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے یا شکر گزار غنی و خوشحال شخص؟ چنانچہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ شکر گزار غنی زیادہ فضیلت رکھتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ سے اکثر وہ چیزیں عمل میں آتی ہیں جو صدقہ و خیرات اور مالی انفاق و ایثار یعنی زکوۃ قربانی اور نیک کاموں میں خرچ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ قرب و نزدیکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں نیز حدیث میں بھی اغنیاء کی تعریف میں یوں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آیت (ذالک فضل اللہ یؤ تیہ من یشاء) یعنی یہ مال و دولت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اکثر حضرات یہ فرماتے ہیں کہ صبر کرنے والا غریب و مفلس زیادہ فضیلت رکھتا ہے جس کی ایک سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ خود حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معیار زندگی اغنیاء کے مطابق نہیں تھا بلکہ غرباء اور مفلسوں کی طرح تھا نیز اس باب میں جو احادیث منقول ہوں گی وہ سب بھی ان حضرات کے قول کی دلیل ہیں۔ تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ اس اختلافی اقوال کا تعلق دراصل مطلق فقر اور غنا کی حقیقت و ماہیت سے ہے اور اس کا اعتبار بھی وجوہ کے مختلف ہونے پر ہے۔
چنانچہ ایک شخص کے حق میں کبھی تو غنا یعنی دولتمندی ، خیر و بھلائی کا باعث بن سکتی ہے اور کبھی اس کا فقیر و مفلس ہونا ہی اس کے حق میں بہتر ہو سکتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ پر مہربان ہوتا ہے تو اس کو وہی چیز دیتا ہے جو اس کے حق میں صلاح و فلاح کا ذریعہ ہوتی ہے۔ خواہ فقر ہو یا غنا، اور خواہ صحت ہو یا تندرستی! یہی حکم کہ اختلاف وجوہ کی بنا پر ایک ہی چیز کبھی افضل ہو سکتی ہے اور کبھی مفضول ان تمام صفات کا ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
حضرت شیخ المشائخ سید محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ صبر کرنے والا مفلس بہت رہے یا شکر گزار دولتمند؟ تو انہوں نے فرمایا کہ شکر گزار فقیر دونوں سے بہتر ہے۔ انہوں نے اس جواب کے ذریعہ گویا فقر و افلاس کی فضیلت کی طرف اشارہ فرمایا کہ فقر افلاس درحقیقت ایک نعمت ہے کہ اس پر شکر گزار ہونا چاہئے نہ کہ وہ کوئی مصیبت و بلا ہے جس پر صبر کیا جائے، شیخ عالم عارف ربانی اور ولی اللہ حضرت عبدالوہاب متقی رحمہ اللہ اپنے شیخ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے جب تک ہم سے فقر و افلاس کی فضیلت کا اقرار و اعتراف نہیں کرا لیا اس وقت تک ہمیں بیعت نہیں کیا، چنانچہ فرمایا کہ اس طرح کہو الفقر افضل من الغناء فقر و افلاس، غنا سے بہتر ہے جب ہم نے اس بات کو دہرایا تب انہوں نے ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور ہمیں مرید کہا ۔
اس موقع پر اس بات کو بھی جان لینا چاہئے کہ اصلاح شریعت میں " فقیر " کا وہ مفہوم مراد نہیں ہوتا جو عام طور پر معروف ہے یعنی گدا گر بھکاری اور منگتا، بلکہ اس لفظ سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جس کو عرف عام میں " غریب و مفلس" کہا جاتا ہے اور جو مال و اسباب سے تہی دست ہوتا ہے اسلام کی مذہبی کتابوں اور احکام و مسائل میں ایسے شخص کے لئے عام طور پر دو لفظ استعمال ہوتے ہیں ایک تو " فقیر" دوسرے " مسکین" ، چنانچہ بعض حضرات نے ان دونوں میں فرق کیا ہے اور کہا ہے کہ " فقیر " کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو نصاب یعنی اس قدر مال و اسباب کا مالک نہ ہو جس کی وجہ سے اس پر زکوۃ و فطرہ واجب ہوتا ہو، یا اس شخص کو فقیر کہا جاتا ہے جو بس ایک دن کی غذائی ضروریات کے بقدر مال و اسباب رکھتا ہو اور اس سے زائد اس کے پاس اور کچھ نہ ہو جب کہ مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جو نہ صرف یہ کہ نصاب کا مالک نہ ہو بلکہ اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو یہاں تک کہ وہ ایک دن کی غذائی ضروریات کے بقدر بھی مال و اسباب نہ رکھتا ہو، اور بعض حضرات نے اس کے برعکس کہا ہے۔ بہرحال عنوان میں جو لفظ " فقراء" استعمال کیا گیا ہے اس سے فقیر اور مسکین دونوں مراد ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں