مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان ۔ حدیث 1145

آخرت قریب ہے

راوی:

وعن مالك رضي الله عنه أن لقمان قال لابنه يا بني إن الناس قد تطاول عليهم ما يوعدون وهم إلى الآخرة سراعا يذهبون وإنك قداستدبرت الدنيا منذ كنت واستقبلت الآخرة وإن دارا تسيرإليها أقرب إليك من دار تخرج منها . رواه رزين

حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ مشہور حکیم لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا، میرے بیٹے! جس بات (یعنی مردوں کا دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جانا، حساب اور ثواب و عذاب وغیرہ) کا لوگوں سے وعدہ کیا کیا تھا، اس کی مدت (از آدم تا ایں دم ) ان پر دراز ہو گئی حالانکہ لوگ آخرت کی طرف تیزی سے چلے جا رہے ہیں۔ اور میرے بیٹے! جس وقت تم پیدا ہوئے تھے اسی وقت سے تمہاری پیٹھ دنیا کی طرف اور تمہارا رخ آخرت کی طرف ہے (یعنی تم اپنی پیدائش کے دن سے گویا دنیا کو پیچھے چھوڑتے چلے آ رہے ہو اور آخرت کی طرف بڑھتے جا رہے ہو) اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جس گھر اور مقام کی طرف تم جا رہے ہو وہ تم سے اس گھر اور مقام کی بہ نسبت زیادہ قریب ہے جس کو تم چھوڑ کر جا رہے ہو" (رزین)

تشریح
" اس کی مدت ان پر دراز ہو گئی" کا مطلب یہ ہے کہ قیامت آنے، امور آخرت اور اس جہان کی زندگی کے بارے میں جو خبر دی گئی ہے اور اس کا جو وعدہ کیا گیا ہے اس پر چونکہ ایک طویل مدت گزر گئی ہے اس لئے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وعدے کے پورے ہونے میں دیر ہو گئی ہے حالانکہ دیر کچھ نہیں ہوئی ہے بلکہ دنیا کا سفر جاری ہے اور لوگ ہر ساعت بلکہ ہر لمحہ اس یوم موعود اور آخرت کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کی خبر ان کو دی گئی ہے جیسا کہ کشتیوں کا کارواں اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہتا ہے اور بھری ہوئی کشتیوں میں بیٹھے ہوئے اہل کارواں راستہ گزرنے کا احساس نہیں کرتے! اسی بات کو اس جملہ، " اور جس وقت تم پیدا ہوئے تھے الخ" کے ذریعہ بیان کیا گیا۔ اس جملہ میں اگرچہ خاص طور پر بیٹے سے خطاب کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد عام خطاب ہے کہ اس بات کا روئے سخن ہر انسان کی طرف ہے۔
روایت کے آخری جملہ سے اس بات کو ثابت کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص کسی جگہ کو چھوڑ کر نکلتا ہے تو اس کا ہر قدم اس جگہ سے دور ہوتا جاتا ہے اور جس جگہ کی طرف اس کا رخ ہوتا ہے اس سے قریب تر ہوتا رہتا ہے ، لہٰذا جو بھی انسان اس دنیا میں اتا ہے وہ اپنی پیدائش کے دن سے آخرت کی طرف اپنا سفر شروع کر دیتا ہے اور دنیا کو پیچھے چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح گویا وہ ہر دن اور ہر لمحہ ایک ایسی مسافت کے درمیان ہے جس کو قطع کرتا رہتا ہے اور اس کے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک دن ایسا آئے گا جب وہ مسافت پوری ہو جائے گی اور وہ جس جانب رواں دواں ہے وہ وہاں پہنچ جائے گا! واضح رہے کہ حکیم لقمان کی اس نصیحت کا مقصد اس غفلت کا پردہ چاک کرنا ہے جس نے امور آخرت کی طرف سے بے پرواہ بنا رکھا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں