مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان ۔ حدیث 1143

تھوڑا مال بہتر ہوتا ہے

راوی:

وعن أبي الدرداء رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما طلعت الشمس إلا وبجنبتيها ملكان يناديان يسمعان الخلائق غير الثقلين يا أيها الناس هلموا إلى ربكم ما قل وكفى خير مما كثر وألهى رواهما أبو نعيم في الحلية

حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب بھی آفتاب طلوع ہوتا ہے اس کے دونوں طرف دو فرشتے ہوتے ہیں جو منادی کرتے ہیں اور جن و انس کے علاوہ اور ساری مخلوق کو سناتے ہیں (یعنی ان کی منادی کو جنات اور انس نہیں سنتے، باقی ساری مخلوق سنتی ہے اور وہ منادی یہ ہوتی ہے) کہ لوگو! اپنے پروردگار کی طرف آؤ (یعنی اپنے پروردگار کے احکام کی اتباع کرو یا یہ معنی ہیں کہ ہر طرف سے بے تعلقی اختیار کر کے اپنے رب کی طرف رجوع کرو، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے آیت (وتبتل الیہ تبتیلا)، اور اس بات کو جان لو کہ جو مال قلیل ہو اور (دینی معاملات کے تکمیل یا زاد عقبی کے طور پر) کفایت کرے وہ اس مال سے کہیں زیادہ بہتر ہے جو زیادہ ہو اور عبادت الٰہی سے باز اور اطمینان سکون کی زندگی سے محروم رکھے" ۔ ان دونوں روایتوں کو ابونعیم نے کتاب حلیہ میں نقل کیا ہے۔

تشریح
فرشتوں کی مذکورہ بالا منادی کا جنات و انسان کو نہ سنایا جانا شاید اس امر کی بناء پر ہے کہ وہ فریضہ کو غیب کی باتوں پر ایمان لانے اور عمل کرنے کے لئے جن و انس پر عائد کیا گیا ہے اس طرح سے بے اثر نہ ہو جائے، ہاں اس موقع پر یہ اشکال ضرور پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ منادی اور اس کا مضمون اصل میں تو انسان ہی کو متنبہ کرنے کے لئے ہے اور جب انسان اس کو سن ہی نہیں سکتا تو وہ متنبہ کیسے ہوگا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس آگاہی کا انحصار محض اپنے کان سے سننے ہی پر نہیں ہے بلکہ اس پر ہے کہ وہ آگاہی سے باخبر اور مطلع ہو جائے سو یہ بات مخبر صادق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خبر دے دینے اور اس آگاہی کے مضمون کو بیان کر دینے سے حاصل ہو جاتی ہے، لہٰذا مذکورہ بالا مضمون جب اس حدیث کے ذریعہ انسان تک پہنچ گیا تو وہ اس سے حقیقتاً باخبر اور مطلع ہو گیا! رہی یہ بات کہ اس تنبیہ میں صرف انسان ہی کو مخاطب کیوں بنایا گیا، جنات کو بھی خطاب کیوں نہیں کیا گیا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں میں جو نوع، زیادہ مال و دولت کی نہایت حریص اور عقبی سے نہایت غافل ہے وہ نوع انسان ہی ہے، یہ صرف انسان ہے جو دنیا کے پیچھے اپنے خالق تک کو بھول جاتا ہے اور دنیا کا مال و متاع اس کو ذکر رب اور عبادت الٰہی کی طرف متوجہ ہونے سے باز رکھتا ہے لہٰذا انسان کو خاص طور پر مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ عقبی کے انجام کی طرف تمہاری یہ غفلت و لاپرواہی اور ذکر اللہ سے تمہارے اس اعراض کا سلسلہ کہاں تک جاری رہے گا؟ اپنی اخروی تباہی کے اس راستہ کو چھوڑ دو، اور آؤ، عبادت رب اور ذکر الٰہی کے ذریعہ اس راہ راست کو اپنا لو جو تمہیں آخرت کے حسن انجام تک لے جائے گی۔ "

یہ حدیث شیئر کریں