تھوڑے کھانے میں بھی دوسروں کو شریک کر لینا بہتر ہے
راوی:
وعن جابر قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " طعام الواحد يكفي الاثنين وطعام الاثنين يكفي الأربعة وطعام الأربعة يكفي الثمانية " . رواه مسلم
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کو دو کا کھانا چار کو اور چار کا کھانا آٹھ کو کافی ہوتا ہے ۔" (مسلم )
تشریح
اس حدیث میں بھی وہی تاویل ہو گی جو اوپر بیان ہوئی لیکن اوپر کی حدیث میں ثلث و ربع کے حساب سے فرمایا گیا ہے ۔ (کہ ایک کا کھانا دو کو اور دو کا تین آدمیوں کو کافی ہوتا ہے ) اس حدیث میں بطریق تضاعف (دگنے کے حساب سے ) فرمایا گیا ہے (کہ ایک کا کھانا دو کو اور دو کا چار کو کافی ہوتا ہے ) یہ اختلاف اشخاص و احوال کے تفاوت کے سبب سے ہے کہ جس جذبہ قناعت اور ایثار کی صورت میں دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لئے ہوتا ہے ، بعض حالات اور بعض آدمیوں کی صورت میں وہی جذبہ قناعت و ایثار کچھ اور بڑھ کر دو آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لئے بھی کافی قرار دے دیتا ہے ۔
منقول ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ قحط سالی کے دنوں میں فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں ہر گھر والوں کے پاس ان کی تعداد کے بقدر آدمی بھیج دوں ، کیونکہ آدمی آدھا پیٹ کھانے سے ہلاک نہیں (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ اس قحط کے زمانہ میں بھی کچھ لوگوں کو اسباب معیشت میسر ہیں اور وہ دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں ، جب کہ کتنے ہی بندگان اللہ ایسے ہیں جنہیں بقاء زندگی کے بقدر بھی خوارک میسر نہیں ہے میں چاہتا ہوں کہ جن گھروں کو اللہ نے پیٹ بھر کھانے کے بقدر رکھا ہے ان میں سے ہر گھر کے ذمہ اتنے محتاج نادار لوگوں کا کھانا کر دوں، جتنے خود گھر والے ہیں، مثلا جس گھر میں پانچ آدمی ہیں ، اس گھر کے ذمہ پانچ ہی ناداروں کا کھانا کر دوں کہ وہ اپنے اتنے ہی کھانے میں کہ جو وہ تیار کرتے ہیں ، ان پانچوں ناداروں کو بھی شریک کر لیں ، اس طرح وہ اپنا آدھا پیٹ کاٹ کر ان ناداروں کی زندگی کی بقاء کا ذریعہ بن جائیں گے جن کو کچھ بھی کھانے کے لئے میسر نہیں تھا اور ظاہر ہے کہ آدھا پیٹ بھرنے سے جسم کی توانائی میں کچھ کمی بے شک آ جائے مگر اس کی وجہ سے آدمی ہلاک نہیں ہوتا ۔
بہرحال ان احادیث و روایات کا اصل مقصد غرباء کی خبر گیری اور اپنی تئیں ایثار و قناعت کو اختیار کرنے کی طرف راغب کرنا ہے اور اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ نفس امارہ کا تقاضا تو ہو سکتا ہے کہ جو کچھ بھی میسر ہو وہ اپنے پیٹ میں ڈال لیا جائے لیکن انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ نے تمہیں جو کچھ دیا ہے کہ اس میں ان لوگوں کو بھی شریک کرو ، جنہیں کچھ بھی میسر نہیں ہو سکا ہے ۔