مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان ۔ حدیث 1087

مال وزر کا غلام بن جانے والے کی مذمت

راوی:

وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " تعس عبد الدينار وعبد الدرهم وعبد الخميصة إن أعطي رضي وإن لم يعط سخط تعس وانتكس وإذا شيك فلا انتقش . طوبى لعبد آخذ بعنان فرسه في سبيل الله أشعث رأسه مغبرة قدماه إن كان في الحراسة كان في الحراسة وإن كان في الساقة كان في الساقة وإن استأذن لم يؤذن له وإن شفع لم يشفع " . رواه البخاري

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " ہلاک ہو وہ شخص جو دینار کا غلام ہو، درہم کا غلام ہو، اور چادر کا غلام ہو (یعنی اس شخص کے لئے آخرت میں ہلاکت وتباہی مقدر ہے جس نے مال ودولت کے حصول کو اپنا مقصد زندگی بنالیا ہو، دنیاوی عیش وتمول کو معبود جبار کی رضا وخوشنودی پر ترجیح دیتا ہے اور طلب مال وحصول زر کی راہ میں ناجائز وحرام وسائل وذرائع اختیار کرنے سے باز نہ رہتا ہو اور پھر جو کچھ کماتا ہو اس کو از راہ بخل جمع کردیتا ہو کہ نہ اس مال کے حقوق کو ادا کرتا ہو نہ اللہ کی راہ میں اور اللہ کی خوشنودی کے لئے اس کو خرچ کرتا ہو، اور اس کے ساتھ ہی اپنی شان وشوکت اور بڑائی جتانے کے لئے لباس فاخرہ زیب تن کرتا ہو اور ناروا اطور پر زیب وزینت میں مبتلا ہو اور ایسے شخص کی علامت یہ ہے کہ) جب اس کو (مال ودولت اور لباس فاخرہ) ملے تو خوش اور راضی ہو، اور اگر نہ ملے تو ناراض وناخوش ہو (گویا اس کی طبیعت کا میلان ہمیشہ لوگوں کے مال وزر کی طرف رہتا ہو اور ہر وقت اس حرص میں مبتلا رہتا ہے کہ فلاں شخص سے فلاں چیز حاصل ہوجائے، چنانچہ اگر لوگ اس کی حرص وتمنا کو پورا کرتے ہیں تو وہ ان سے خوش رہتا ہے اور اگر ان کی طرف سے اس کی اس حرص وطمع کی تکمیل نہیں ہوتی تو ان سے ناخوش وناراض ہوجاتا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس دینے یا نہ دینے کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو، یعنی اگر اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کے مطابق اس کو مال ودولت اور سامان تعیش عطا کرتا ہے تو وہ اس سے خوش ہوجاتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس کی خواہش وحرص کو پورا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے تئیں اپنی ناراضگی ظاہر کرتا ہے) ایسے شخص کی اس مذموم خصلت کی وجہ سے گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکرر بددعا فرمائی کہ ہلاک ہو ایسا شخص اور ذلیل وسرنگوں ہو! اور (دیکھو) جب اس شخص کے پاؤں میں کانٹا لگ جائے تو کوئی اس کو نہ نکالے (گویا تہدید وتنبیہ کے طور پر ایسے شخص کے حق میں مسلمانوں کو آگاہ فرمایا گیا کہ اگر ایسی مذموم خصلت رکھنے والا شخص کسی آفت وپریشانی میں مبتلا ہوجائے تو کوئی اس کی مدد و اعانت نہ کرے۔ دنیا داروں اور حرص وطمع کے غلام لوگوں کی اس بدحالی کو ذکر کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاہا کہ ان کے مقابلہ پر ان طالبان دین اور زاہدان دنیا کا بھی ذکر فرمائیں جو آخرت کی فلاح حاصل کرنے اور دین کو سربلند کرنے کے لئے محنت ومشقت اور جہاد کے ذریعہ اللہ کی راہ میں مشغول رہتے ہیں، دنیا سے بے نیازی برتتے ہیں، ظاہری زینت وآرائش سے دور رہتے ہیں اور اہل دنیا کے طور طریقوں سے اپنے کو الگ رکھتے ہیں اور اس وجہ سے ظاہر پرستوں کی نظر میں نہایت کمتر وحقیر معلوم ہوتے ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) سعادت وخوش بختی ہے اس بندے کے لئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے اپنے گھوڑے کی باگ پکڑے کھڑا ہے، اس کے سر کے بال پراگندہ اور قدم غبار آلود ہیں، اگر اس کو لشکر کی اگلی صفوں کے آگے نگہبانی پر مامور کیا جاتا ہے تو پوری طرح نگہبانی کرتا ہے (کہ کسی بھی وقت اپنی ذمہ داری کی انجام دہی سے نہ غافل رہتا ہے اور نہ سوتا ہے بلکہ ہر وقت پوری ہوشیاری و چستی کے ساتھ نگہبانی کرتا ہے ) اور اگر اس کو لشکر کے پیچھے رکھا جاتا ہے تو لشکر کے پیچھے ہی رہتا ہے (یعنی وہ امیر لشکر اور مسلمانوں کی پوری تابعداری کرتا ہے کہ اس کو جس جگہ مامور کیا جاتا ہے وہیں اپنا فرض انجام دیتا ہے، اور اس سے جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر پوری طرح عمل کرتا ہے، تکبر اور ضدواصرار نہیں کرتا) اور (خدا کے نزدیک اپنے اس مرتبہ وسعادت کے باوجود اپنے معاشرہ میں اس قدر سادگی، جاہ ومال اور شان وشوکت سے اس قدر بے نیازی اور اس قدر انکساری کے ساتھ رہتا ہے کہ دنیا دار اس کو کوئی وقعت واہمیت نہیں دیتے یہاں تک کہ) اگر وہ لوگوں کی محفلوں میں شریک ہونا چاہتا ہے تو اس کو شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی، اور اگر کسی کی سفارش کرتا ہے تو اس کی سفارش قبول نہیں کی جاتی۔"

تشریح :
" دینار ودرہم کا غلام" اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ مال ودولت کے سلسلہ میں جو چیز مذموم ہے وہ اس مال ودولت کی محبت اور دنیا داری میں مبتلا ہونا ہے، چنانچہ یہ خصلت (یعنی مال ودولت اور دنیا کی محبت میں گرفتارہونا) انسان کو مال کا بندہ بنا دیتی ہے کہ اس کی ہر سعی اور جدو جہد کا محور، اس کی ہر تمنا وخواہش کا مرکز اور اس کے ہر فعل وعمل کی بنیاد صرف مال و زر ہوتا ہے اس سے واضح ہوا کہ مال داری اور دولت مندی بذات خود کوئی مذموم چیز نہیں ہے، کسی شخص کے پاس خواہ کتنا ہی مال و زر ہو اور وہ کتنا بڑا دولت مند ہو، اگر وہ دولت کی محبت میں گرفتار نہیں ہے تو اس کو برا نہیں کہیں گے۔
حدیث میں مال ودولت کے تعلق سے " دینار اور درہم" ہی کا ذکر اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ یہ دونوں چیزیں (جن کو سونا چاندی یا روپیہ پیسہ بھی کہا جاسکتا ہے) زر نقد ہیں کہ لین دین اور خرید وفروخت میں انہیں کا اعتبار ہوتا ہے اور ان کے ذریعہ ہی تمام جائز وناجائز مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے، اسی طرح اسباب معیشت میں صرف" چادر" کا ذکر اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ اصل میں " خمیصہ" اس خط دار چادر کو کہتے ہیں جو اس زمانہ میں لباس فاخرہ کا سب سے اعلی مظہر سمجھی جاتی تھی اور اس کے استعمال سے عام طور پر تکبرورعونت اور نمود ونمائش کا جذبہ پیدا ہوتا تھا، نیز لوگ اس چادر کو اس قدر پسند کرتے تھے کہ اس کو اپنے سے جدا کرنا بھی ان کو گوارہ نہیں ہوتا تھا ، لہٰذا اس زمانہ کے دنیادار اس چادر کی خواہش وطلب اور اس کی محبت میں اس قدر گرفتار ہوتے تھے کہ جیسے انہوں نے اس چادر کی غلامی اختیار کرلی ہو۔
نقش اور انتقاش کے معنی ہیں" پیر سے کانٹا نکالنا " لہٰذا واذا شیک فلا انتقش کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مال ودولت اور روپیہ پیسہ کا غلام بن جائے کہ نہ تو وہ ناجائز اور حرام وسائل وذرائع سے کمانا اور دولت جوڑنا ترک کرتا ہو اور نہ اپنے روپیہ پیسہ کو حقداروں پر اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہو تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس کے ساتھ تعاون اور اس کی پشت پناہی سے گریز کریں۔ اور جب وہ کسی آفت میں پھنسے تو اس کی کوئی مدد نہ کریں، اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ پیر سے کانٹا نکالنا چونکہ مدد کرنے کا سب سے ادنی درجہ ہے لہٰذا اس سب سے ادنیٰ درجہ کی مدد سے بھی منع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر اس کو کوئی اس سے بھی بڑا حادثہ پیش آجائے اور اس سے بھی زیادہ سخت حالات سے دوچار ہو تو اس کی مدد نہ کرنا بطریق اولیٰ جائز بلکہ مطلوب ہوگا۔
یہ بات بھی واضح کر دینا ضروری ہے کہ حدیث کے لفظ " تعس" کا یہ ترجمہ کہ " ہلاک ہو وہ شخص الخ" اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کی مراد ایسے شخص کے حق میں بد دعا کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ ترجمہ کے پیش نظر اور شارحین کی اتباع کی بناء پر نقل کیا گیا ہے اور اگر یہ مراد لیا جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لفظ کے ذریعہ اس شخص کے حق میں بد دعا نہیں فرمائی بلکہ اس بد ترین خصلت کی مذمت اور اس خصلت کو اختیار کرنے والوں کو دنیاوی اور اخروی ذلت وخواری اور ان کے برے انجام کو بطور خبر ظاہر فرمایا تو اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ" ہلاک ہوا وہ شخص الخ" اور یہ مراد بھی حدیث کے مغائر نہیں ہوگی۔

یہ حدیث شیئر کریں