مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان ۔ حدیث 1086

جنت اور دوزخ کے پردے

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " حجبت النار بالشهوات وحجبت الجنة بالمكاره " . متفق عليه . إلا أن عند مسلم : " حفت " . بدل " حجبت "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ " دوزخ کی آگ شہوتوں یعنی خواہشات لذات سے ڈھانکی گئی ہے، اور جنت سختیوں اور مشقتوں سے ڈھانکی گئی ہے" اس روایت کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے لیکن مسلم کی روایت میں " حجبت" (یعنی ڈھانکی گئی ہے کہ بجائے)" حفت" (یعنی گھیری گئی ہے) کا لفظ ہے۔"

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ وہ محنت ومشقت اور سختی وپریشانی پر جو طاعت وعبادت کی مداومت وپابندی اور نفسانی خواہشات ولذات سے اجتناب کی وجہ سے اٹھانا پڑتی ہے ، گویا بہشت کا پردہ ہے، اور جو چیز پردے کے پیچھے ہوتی ہے اس تک پہنچنے کے لئے پہلے پردہ تک پہنچنا اور اس کو اٹھانا ضروری ہوتا ہے اس لئے اگر جنت تک پہنچنا چاہتے ہو تو پہلے اس کے پردے کو اٹھاؤ یعنی احکام الٰہی کی اتباع اور نفس کی خواہشات سے اجتناب کی محنت اور سختی برداشت کرو، جب ان باتوں کو اختیار کرو گے تب کہیں جنت تک رسائی ہوگی۔ اسی طرح نفس کی خواہشات ولذژات گویا دوزخ کا پردہ ہیں۔ جو شخص اس پردہ کو ہٹائے گا یعنی نفس کی اتباع اور خواہش پرستی کا ارتکاب کرے گا وہ دوزخ تک پہنچ جائے گا۔
واضح رہے کہ حدیث میں " شہوات" کا جو لفظ استعمال فرمایا گیا ہے اس کا تعلق نفس کی ان خواہشات ولذات سے ہے جو حرام چیزوں جیسے شراب نوشی، زنا اور غیبت وغیرہ کا ارتکاب کراتی ہیں، ورنہ جہاں تک مباح خواہشات ولذات کا تعلق ہے وہ نہ تو دوزخ میں لے جانے کا باعث بنتی ہیں اور نہ جنت میں داخل ہونے سے روکتی ہیں، اگرچہ نفس کی مباح خواہشات ولذات کا اتباع بھی بندہ کو قرب اور ولایت کے مقام سے دور کردیتا ہے۔
حدیث کی مذکورہ بالا وضاحت سے یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ ایک روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ العلم حجاب اللہ (یعنی علم اللہ تعالیٰ کا پردہ ہے) تو اس کے کیا معنی ہیں، چنانچہ اس جملہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ علم، گویا اللہ اور بندے کے درمیان پردہ ہے، جو شخص علم حاصل کرتا ہے وہ گویا اس پردہ کو اٹھا دیتا ہے اور جب وہ پردہ اٹھ جاتا ہے تو اللہ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں