مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان ۔ حدیث 1082

دنیا اور آخرت کی مثال

راوی:

وعن المستورد بن شداد قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " والله ما الدنيا في الآخرة إلا مثل ما يجعل أحدكم أصبعه في اليم فلينظر بم يرجع " . رواه مسلم

حضرت مستورد بن شداد کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ " اللہ کی قسم! آخرت (کے زمانہ اور وہاں کی نعمتوں) کے مقابلے میں دنیا ( کے زمانہ اور اس کی نعمتوں) کی مثال ایسی ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی کو سمندر میں ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ وہ انگلی کیا چیز لے کر واپس آئی ہے۔ " (مسلم)

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی انگلی کو سمندر میں ڈبو کر باہر نکالے تو وہ دیکھے گا کہ اس کی انگلی سمندر میں سے محض تری یا صرف ایک آدھ قطرہ پانی کا لے کر واپس آئی ہے، پس سمجھنا چاہئے کہ آخرت کے زمانہ اور وہاں کی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کا زمانہ اور دنیا کی تمام نعمتیں اسی قدر قلیل وکمتر ہیں جس قدر کہ سمندر کے مقابلہ میں اس کی انگلی کو لگا ہوا پانی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تمثیل بھی محض لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہے ورنہ متناہی کو غیر متناہی کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ہو سکتی، پانی کا وہ ایک قطرہ جو دریا سے باہر آیا ہے اپنی کمتری و بے وقعتی کے باوجود سمندر سے کچھ نہ کچھ نسبت ضرور رکھتا ہے مگر دنیا، آخرت سے اس قدر بھی نسبت نہیں رکھتی ۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ نہ تو نہایت جلد فنا ہوجانے والی دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں پر مغرور ہو اور نہ اس کی سختیوں اور پریشانیوں پر روئے پیٹے اور نہ شکوہ وشکایت کرے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کے مطابق یہی کہے کہ : اللہم لا عیش الا عیش الاخرۃ، " اے اللہ! اصل زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے" نیز اس حقیقت کو ہر لمحہ مدنظر رکھے کہ یہ دنیا ، مزرعۃ الاخرۃ (آخرت کی کھیتی ہے ) اور یہاں کی زندگانی بس ایک ساعت کی ہے لہٰذا اس ایک ساعت کو گنوانے کی بجائے طلب الٰہی میں مصروف رکھنا ہی سب سے بڑی دانشوری ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں