لوگوں کو راضی وخوش رکھنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کی رضامندی وخوشنودی حاصل کرو
راوی:
وعن معاوية أنه كتب إلى عائشة رضي الله عنها أن اكتبي إلي كتابا توصيني فيه ولا تكثري . فكتبت سلام عليك أما بعد فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من التمس رضى الله بسخط الناس كفاه الله مؤونة الناس ومن التمس رضى الناس بسخط الله وكله الله إلى الناس والسلام عليك . رواه الترمذي
" حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لکھا کہ آپ مجھ کو ایک نصیحت نامہ لکھ کر بھیج دیجئے (جس پر میں عمل پیرا ہو سکوں اور آپ کو وہ نصیحت میرے دینی ودنیاوی امور میں میرے لئے فلاح وسعادت کی باعث ہو) اور وہ نصیحت نامہ طویل نہ ہو (بلکہ مختصر اور جامع ہو، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ کلمات لکھ کر بھیج دئیے۔ تم پر سلامتی ہو۔ بعد ازاں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے کہ جو شخص لوگوں کی خفگی وناراضگی سے بے پرواہ ہو اور لوگوں کی ناراضگی وناخوشی کا سبب بنے تو اللہ تعالیٰ لوگوں کی محبت کی طرف سے اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے (یعنی اگر کوئی شخص ایسا کام کرے جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی وخوشندی کا باعث ہو اور لوگوں کی ناراضگی وناخوشی کا سبب بنے تو اللہ تعالیٰ اس کام کی وجہ سے اس سے خوش ہوتا ہے اور آخر الامر مخلوق کو بھی اس سے راضی وخوش کردیتا ہے اور لوگوں کے شروفساد سے اس کو محفوظ رکھتا ہے ) اور جو شخص لوگوں کی رضامندی وخوشنودی کو مد نظر رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خفگی وناراضگی سے بے پرواہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کے سپرد کردیتا ہے۔ اور سلامتی ہو تم پر۔ (ترمذی)
تشریح :
" اس کو لوگوں کو سپرد کردیتا ہے" کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی خفگی وناراضگی سے بے پرواہ ہو کر لوگوں ہی کی رضامندی وخوشنودی کو ترجیح دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس سے بے پرواہ ہوجاتا ہے اور اس کے امور کو لوگوں کے سپرد کردیتا ہے یہی نہیں کہ اس کے ان امور میں اس کی مدد نہیں کرتا اور دوسروں کے شروفتنہ سے اس کو محفوظ نہیں رکھتا بلکہ لوگوں کو اس پر مسلط کردیتا ہے ۔ جو اس کو ایذاء پہنچاتے ہیں اور اس پر طلم وستم کرتے ہیں حاصل یہ کہ بندوں کے حق میں اصل چیز رضائے مولیٰ ، اگر اللہ راضی وخوش ہے تو مخلوق اللہ بھی راضی اور مطیع ہوجائے گی اور اگر رضائے مولیٰ پر نظر نہ ہو تو پھر نہ اللہ راضی وخوش ہوتا ہے اور نہ مخلوق اللہ راضی وخوش ہوتی ہے۔
اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ خط کے شروع میں بھی سلام لکھا جائے اور آخر میں بھی چنانچہ شروع کا سلام تو ملاقات کے سلام کا درجہ رکھتا ہے اور آخر کا سلام رخصت کے سلام کا قائم مقام ہوتا ہے۔