مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ امر بالمعروف کا بیان ۔ حدیث 1052

آخرت میں ہر حق تلفی کا بدلہ لیا جائے گا

راوی:

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لتؤدن الحقوق إلى أهلها يوم القيامة حتى يقاد للشاة الجلحاء من الشاة القرناء . رواه مسلم . وذكر حديث جابر اتقوا الظلم . في باب الإنفاق

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے حق داروں کو ان کے حقوق ادا کئے جائیں گے، یہاں تک کہ بے سینگ بکری کا قصاص(بدلہ) سینگ دار بکری سے لیا جائے گا " ۔ (مسلم) اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ۔ اتقوا الظلم، باب الانفاق میں ذکر کی جا چکی ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اس دن (میدان حشر میں) اللہ تعالیٰ کا عدل و انصاف اس حد تک کار فرما ہوگا کہ آدمیوں کے حقوق کا بدلہ تو لیا ہی جائے گا لیکن حیوانات کہ جن کو انسان کی طرح مکلف قرار نہیں دیا گیا ہے ان سے بھی حق تلفی کا بدلہ لیا جائے گا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ قصاص یعنی بدلہ (جس کا ذکر مذکورہ بالا حدیث میں ہے) اس طرح کا قصاص نہیں ہے جو مکلف سے لیا جاتا ہے بلکہ اس سے مقابلہ کا قصاص مراد ہے لیکن ملا علی قاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس کو مقابلہ کا قصاص قرار دینا محل نظر ہے اور یہ کوئی صحیح بات نہیں ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس قصاص سے بھی وہی قصاص مراد ہے، جو مکلف سے لیا جاتا ہے مگر اس پر یہ اشکال واقع ہوگا کہ حیوان مکلف نہیں ہوتا لہٰذا اس سے قصاص کس طرح لیا جائے گا؟ اس کا مختصر جواب ہے یہ کہ اول تو اللہ تعالیٰ فعال لما یرید ہے اس اعتبار سے وہ اپنی مرضی کا مالک اور اپنے ہر فعل پر قادر و مختار ہے لہٰذا ولا یسأل عما یفعل یعنی وہ جو کچھ کرے گا اور جس طرح کرے گا اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا دوسرے یہ کہ یہاں بکری سے قصاص لئے جانے کا ذکر درحقیقت بندوں کو اس امر سے آگاہ کرنے کے لئے ہے کہ کسی کا کوئی حق ضائع نہیں ہوگا بلکہ جو بھی شخص جس شخص کا حق مارے گا اور اس کے ساتھ ظلم کرے گا اس سے اس حق تلفی اور ظلم کا بدلہ حق دار اور مظلوم کو ضرور دلایا جائے گا۔ یہ دوسری تاویل زیادہ اچھی اور زیادہ قابل فہم ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں