متکبر جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
راوی:
وعن ابن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يدخل النار أحد في قلبه مثقال حبة خردل من إيمان . ولا يدخل الجنة أحد في قلبه مثقال حبة من خردل من كبر . رواه مسلم
" اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا وہ شخص دوزخ میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا۔ (مسلم)
تشریح
ایمان سے مراد اصل ایمان نہیں ہے بلکہ ایمان کے ثمرات مراد ہیں جن کو فضائل و اخلاق سے تعبیر کیا جاتا ہے خواہ ان کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے اور جو نور ایمان اور ظہور ایقان سے صادر ہوتے ہیں جہاں تک اصلی ایمان کا تعلق ہے وہ چونکہ تصدیق قلبی کا نام ہے اس لئے اس میں نہ تو زیادتی ہو سکتی ہے اور نہ کمی ، اس اعتبار سے اس کو اجزاء میں منقسم بھی نہیں کیا جا سکتا البتہ اس کے شعبے اور شاخیں بہت ہیں جو اصل ایمان کی حقیقت و ماہیت سے خارج ہیں جیسے نماز روزہ اور زکوۃ وغیرہ اور اسی طرح اسلام کے ظاہری دوسرے تمام احکام یا جیسے تواضع اور ترحم اور اسی طرح وہ تمام چیزیں جو باطنی اوصاف و خصائل کا درجہ رکھتی ہیں چنانچہ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ الایمان بضع و سبعون شعبۃ۔ ایمان کی کچھ اوپر ستر شاخیں ہیں ۔ظاہر ہے کہ شاخوں اور اس کی اصل کے درمیان اتنا گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کا درجہ رکھتی ہیں لیکن اس کے باوجود حقیقت و ماہیت کے اعتبار سے کوئی بھی شاخ اپنی اصل کا مترادف نہیں ہو سکتی اس طرح اصل ایمان ایک الگ چیز ہے اور اسلام کے تمام ظاہری احکام و باطنی اخلاق و خصائل جداگانہ حثییت رکھتے ہیں جن کو اصل ایمان کی حقیقت و ماہیت میں شامل نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد الحیاء شعبۃ من الایمان ۔ مذکورہ بالا قول کی دلیل ہے کیونکہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حیاء ایمان کے مفہوم میں داخل نہیں ہے۔
حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ اس کے نامہ اعمال میں تکبر کا گناہ موجود رہے گا جب وہ تکبر اور دوسری بری خصلتوں کی آلائش سے پاک و صاف ہو جائے گا تو اس وقت جنت میں داخل کیا جائے گا اور یہ کہ پاکی و صفائی یا تو اس صورت میں حاصل ہوگی کہ اللہ اس کو عذاب میں مبتلا کرے گا اور وہ عذاب اس آلائش کو دھو دے گا یا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کو معاف کر دے گا اور معافی اس آلائش کو زائل کر دے گی، خطابی نے لکھا ہے کہ حدیث کے اس جزء کی دو تاویلیں ہیں ایک تو یہ کہ کبر سے کفر و شرک مراد ہے اور ظاہر ہے کہ کفر و شرک کے مرتکب پر جنت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ بند رہیں گے۔ دوسری تاویل یہ ہے کہ کبر سے مراد تو اس کے اپنے معنی ہی ہیں یعنی اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے برتر و بلند سمجھنا اور غرور گھمنڈ میں مبتلا ہونا البتہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ متکبر شخص اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ اللہ کی رحمت اس پر متوجہ نہ ہو چنانچہ جب حق تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرنا چاہے گا تو اس کے دل میں سے کبر کو نکال باہر کرے گا اور پھر اس کی کدورتوں سے پاک و صاف کر کے جنت میں داخل کر دے گا۔