جنتی اور دوزخی لوگ
راوی:
وعن حارثة بن وهب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا أخبركم بأهل الجنة ؟ كل ضعيف متضعف لو أقسم على الله لأبره . ألا أخبركم بأهل النار ؟ كل عتل جواظ مستكبر . متفق عليه . وفي رواية مسلم كل جواظ زنيم متكبر
" اور حضرت حارث بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کیا میں تمہیں جنتیوں کا بتلا دوں؟ یعنی کیا میں یہ کہوں کہ کون لوگ جنتی ہیں تو سنو ہر وہ ضعیف شخص جنتی ہے جس کو لوگ ضعیف و حقیر سمجھیں اور اس کی کمزوری و شکستہ حالی کی وجہ سے اس کے ساتھ جبر و تکبر کا معاملہ کریں حالانکہ حقیقت کے اعتبار سے وہ ضعیف و کمزور اللہ کے نزدیک اس قدر اونچا مرتبہ رکھتا ہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر کسی بات پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اس کی قسم کو سچا کر دے اور کیا میں تمہیں وہ لوگ بتلا دوں جو دوزخی ہیں؟ تو سنو ہر وہ شخص دوزخی ہے جو جھوٹی باتوں اور لغو باتوں پر سخت گوئی کرنے والا جھگڑالو ہو مال جمع کرنے والا بخیل ہو، اور تکبر کرنے والا ہو۔ (بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ہر وہ شخص دوزخی ہے جو مال کو جمع کرنے والا اور حرام زادہ اور تکبر کرنے والا ہو۔
تشریح
ہر ضعیف جنتی ہے۔سے مراد وہ شخص ہے جو نہ تو گھمنڈ اور متکبر ہو اور نہ لوگوں پر جبر و زیادتی کرنے والا ہو ۔ لفظ متضعف میں مشہور تو عین پر زبر ہی ہے اور ترجمہ میں اسی کو ملحوظ رکھا گیا ہے لیکن بعض حضرات نے عین کو زیر کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس لفظ کے معنی متواضع اور کمتر اور گمنام کے ہوں گے۔ہر ضعیف جنتی ہے سے مراد یہ ہے کہ جنت میں جن لوگوں کی کثرت ہوگی وہ یہی لوگ ہوں گے اس طرح دوسری قسم کے لوگ یعنی دوزخی جن کو قرار دیا ہے سے بھی یہی مراد ہے کہ دوزخیوں کی اکثریت ان ہی لوگوں پر مشتمل ہو گی۔ علماء نے لو اقسم علی اللہ کے معنی بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ اگر وہ شخص اللہ کے لطف و کرم پر اعتماد کر کے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھا لے تو اللہ اس کو سچا کرتا ہے اور اس کے اعتماد کو پورا کرتا ہے یعنی اس کی قسم ٹوٹتی نہیں بلکہ پوری ہوتی ہے۔ ترجمہ میں اس معنی کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ دوسرے یہ کہ اگر وہ شخص اپنے پروردگار سے کسی چیز کا طلب گار ہوتا ہے اور اس کو قسم دے کر اپنی مراد پوری ہونے کی دعا کرتا ہے تو پروردگار اس کی قسم کی لاج رکھتا ہے اور اس کی مراد پوری کرتا ہے اور تیسرے یہ کہ اگر وہ شخص کسی کام کے بارے میں قسم کھا کر یہ کہتا ہے کہ حق تعالیٰ اس کام کو کرے گا یا اس کام کو نہیں کرے گا تو اللہ اس کی قسم کو سچا کرتا ہے یعنی اس طرح کرتا ہے جو اس کی قسم کے مطابق ہوتا ہے۔
زنیم کے معنی کمینہ کے ہیں اور اس کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو اپنے آپ کو کسی ایسی قوم یا طبقے کی طرف منسوب کر لے جس سے حقیقت میں وہ کوئی تعلق نہیں رکھتا اسی لئے زنیم کا ترجمہ حرام زادہ کیا جاتا ہے چنانچہ عتل اور زنیم کے الفاظ قرآن کریم میں بھی آئے ہیں اور مذکورہ بالا معنی ہی ان میں الفاظ کا مصداق ولید بن مغیرہ کو قرار دیا گیا ہے جو کفار مکہ میں سے نہایت بدظن اور اسلام و پیغمبر اسلام کا سخت ترین دشمن تھا۔