حیاء کی تعریف وفضیلت
راوی:
عن زيد بن طلحة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن لكل دين خلقا وخلق الإسلام الحياء . رواه مالك مرسلا . ورواه ابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان عن أنس وابن عباس
" اور حضرت زید بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر دین اور مذہب میں ایک خلق ہے (یعنی ہر مذہب والوں میں ایک ایسی صفت و خصلت ہوتی ہے جو ان کی تمام صفتوں پر غالب اور ان کی ساری خصلتوں سے اعلی ہوتی ہے) اور اسلام کا وہ خلق حیاء ہے۔ اس روایت کو مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے (کیونکہ زید صحابی نہیں ہیں بلکہ تابعی ہیں نیز ابن ماجہ اور شعب الایمان میں بیہقی نے اس روایت کو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا ہے۔
تشریح
یہاں" حیاء" سے اس چیز میں شرم و حیاء کرنا مراد ہے جس میں حیاء کرنا مشروع ہے چنانچہ جن چیزوں میں شرم و حیاء کرنے کی اجازت نہیں ہے جیسے تعلیم و تدریس ، امربالمعروف ونہی عن المنکر ادائیگی حق کا حکم دینا خود حق کو ادا کرنا اور گواہی دینا وغیرہ وغیرہ ان میں شرم و حیاء کرنے کی کوئی فضیلت نہیں ہے۔
حدیث کا زیادہ مفہوم بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دین کے لوگوں پر کوئی نہ کوئی وصف و خصلت غالب رہتی ہے چنانچہ اہل اسلام پر جس طبعی وصف و خصلت کو غالب قرار دیا گیا ہے وہ حیاء ہے اور باوجودیکہ حیاء بھی ان اوصاف و خصائل میں سے ہے جو تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہیں لیکن اسی وصف و حیاء کو خاص طور پر اہل اسلام پر غالب کیا گیا ہے اور دوسرے مذہب کے لوگوں میں اس جوہر کو بہت کم رکھا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حیاء نہ صرف یہ کہ طبعی خاصیتوں اور خصلتوں میں سب سے اعلی درجہ رکھتی ہے بلکہ یہ وہ جوہر ہے جس سے انسانی اخلاق و کردار کی تکمیل بھی ہوتی ہے اور چونکہ حضور نے فرمایا کہ " بعثت لاتمم مکارم الاخلاق" (میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں) اس لئے اس جوہر کے ذریعہ ملت اسلامیہ کے اخلاق اوصاف کو کمال کے درجہ پر پہنچایا گیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ صرف حیاء ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہم سے پہلے کی امتوں میں تمام ہی اخلاق و خصائل ناقص تھے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے اور آپ کی برکت سے ملت اسلامیہ میں تمام اخلاق و خصائل کو کامل و مکمل کیا گیا اسی لئے ملت اسلامیہ کی اس خاصیت کو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ " آیت (کنتم خیر امۃ اخرجت للناس)" (تم کو دنیا والوں کے لئے سب سے بہتر امت بنا کر پیدا کیا گیا ہے الخ۔ ۔)۔
ابن ماجہ اور بیہقی نے مذکورہ بالا روایت کو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بطریق موقوفہ نقل نہیں کیا ہے جیسا کہ عبارت سے ظاہر اسلوب سے یہ گمان ہو سکتا ہے بلکہ بطریق مرفوع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کے طور پر نقل کیا ہے نیز مذکورہ عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں یعنی ابن ماجہ اور بیہقی میں سے ہر ایک نے ان دونوں صحابی سے اس روایت کو نقل کیا ہے اور یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ مذکورہ عبارت میں ان دونوں کا ذکر علی الترتیب ہو یعنی ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور بہیقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا ہے، لیکن جامع صغیر میں اس حدیث کو ابن ماجہ کے سلسلہ کے ساتھ براویت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نقل کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح بیہقی نے بھی اس روایت کو ان دونوں صحابی سے نقل کیا ہے۔