غصہ پر قابو پانے کی فضیلت
راوی:
وعن سهل بن معاذ عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال من كظم غيظا وهو يقدر على أن ينفذه دعاه الله على رؤوس الخلائق يوم القيامة حتى يخيره في أي الحور شاء . رواه الترمذي وأبو داود وقال الترمذي هذا حديث غريب وفي رواية لأبي داود عن سويد بن وهب عن رجل من أبناء أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عن أبيه قال ملأ الله قلبه أمنا وإيمانا . وذكر حديث سويد من ترك لبس ثوب جما ل في كتاب اللباس
" اور حضرت سہل بن معاذ اپنے والد (حضرت معاذ ) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے غصہ کو پی جائے باوجودیکہ وہ اس غصہ پر عمل کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو قیامت کے دن اللہ اس کو مخلوق کے روبرو بلائے گا اور اس کو یہ اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے پسند کر لے، اس روایت کو ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے، اور ابوداؤد کی ایک اور روایت میں کہ جو انہوں نے سوید بن وہب سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کے ایک صاحبزادے سے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ حضور نے (تو قیامت کے دن اللہ اس کو مخلوق کے روبرو بلائے گا الخ۔ ) کے بجائے اس طرح فرمایا کہ اللہ اس شخص کے دل کو امن و امان سے معمور کرے (جو اپنے غصہ کو پی جائے) اور حضرت سوید کی یہ روایت " من ترک لبس ثوب جمال الخ۔ ۔ کتاب اللباس میں نقل کی جا چکی ہے۔
تشریح
" اللہ اس کو مخلوق کے روبرو بلائے گا " کا مطلب یہ کہ حق تعالیٰ قیامت کے دن ساری مخلوق کے درمیان اس شخص کو نیک شہرت دے گا، اس کی تعریف و توصیف کرے گا، اور اس پر فخر کا اظہار کرے گا نیز اس کے بارے میں اعلان کیا جائے گا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے اندر اتنی بڑی خوبی تھی۔غصہ پر قابو پانے کی صفت کو اتنا اونچا مقام دینے کی وجہ یہ ہے کہ غصہ دراصل نفس امارہ کی ہیجانی کیفیت کا نام ہے اور جس نے اپنا غصہ پی لیا اس نے گویا اپنے نفس امارہ کو کچل ڈالا اسی لئے غصہ پر قابو پانے والوں کی تعریف حق تعالیٰ نے بھی ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ آیت (والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس)" اور جو شخص اپنے نفس کو اس کی خواہش سے باز رکھتا ہے اس کا آخری ٹھکانہ جنت اور اس کا انعام حور عین ہے واضح رہے کہ جب اتنا عظیم اجر محض غصہ کو پی جانے پر حاصل ہوگا تو اس شخص کے مقام و مرتبہ کی بلندی کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے جو محض غصہ کو پی جانے پپر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ عفو و احسان کا برتاؤ بھی کرے چنانچہ امام ثوری فرماتے ہیں کہ اصل احسان یہی ہے کہ تم اس شخص پر احسان کرو جو تمہارے ساتھ برائی کرے کیونکہ جس شخص نے تم پر احسان کیا ہے اگر تم اس پر احسان کرتے ہو تو وہ تمہارا احسان نہیں بلکہ بدلہ چکانا ہے۔