بطریق نیلام بیع جائز ہے
راوی:
وعن أنس : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم باع حلسا وقدحا فقال : " من يشتري هذا الحلس والقدح ؟ " فقال رجل : آخذهما بدرهم . فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " من يزيد على درهم ؟ " فأعطاه رجل درهمين فباعهما منه . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه
حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ بیچنے لگے تو فرمایا کہ اس ٹاٹ اور پیالہ کا خریدار کون ہے جو خریدنا چاہتا ہو وہ اس کی قیمت لگائے) ایک شخص نے عرض کیا کہ میں ان دونوں چیزوں کو ایک درہم کے عوض لے سکتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ایک درہم سے زیادہ قیمت دینے والا کوئی ہے؟ چنانچہ ایک دوسرے شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو درہم پیش کئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دونوں چیزیں اس شخص کے ہاتھ دو درہم کے عوض فروخت کردیں (ترمذی ابوداؤد)
تشریح :
اس بیع کا اصل واقعہ یوں ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دست سوال دراز کیا اور یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کچھ عنایت فرما دیں تا کہ وہ اپنا پیٹ بھر سکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ سامان بھی ہے اس نے عرض کیا کہ جی نہیں میرے پاس کوئی سامان نہیں ہے ہاں ٹاٹ کا ایک ٹکڑا اور ایک پیالہ ضرور پڑا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان دونوں چیزوں کو بیچ دو اور اس کی قیمت کے طے طور پر جو کچھ وصول ہو اس سے اپنا پیٹ بھرو اس کے بعد جب تمہارے پاس کچھ بھی نہ رہ جائے تب صدقہ و خیرات مانگو چنانچہ وہ شخص دونوں چیزیں لے آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا طریقے پر گویا بصورت نیلام ان چیزوں کو فروخت فرمایا۔ بیع کی صورت کو عربی میں بیع من یزید اور حراج کہتے ہیں شرعی طور پر یہ بیع درست ہے۔
اب رہی یہ بات کہ شارع نے چونکہ اس سے منع کیا ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کے دام نہ لگائے جس کے دام کسی دوسرے شخص کی جانب سے لگ رہے ہوں تو بیع کی یہ صورت کیسے جائز ہوگی تو اس بارے میں سمجھ لینا چاہئے کہ دام پر دام لگانے کی ممانعت کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ بیچنے والا اور خریدار دونوں ہی کسی ایک دام پر راضی ہو گئے ہوں اور معاملہ طے پا گیا ہو ایسی صورت میں اب کسی دوسرے شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اس بیع میں مداخلت کرے اور اپنی طرف سے بھی دام لگانے لگے لیکن یہاں بیع کی جو صورت ذکر کی گئی اس کی نوعیت بالکل دوسری ہے اس بیع میں تو بیچنے والے کا ارادہ ہی یہ ہوتا ہے کہ جو سب سے زیادہ دام لگائے گا اسی کو چیز دی جائے گی چنانچہ نیلام میں یہی ہوتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر دام لگاتے رہتے ہیں جس شخص کی آخری بولی ہوتی ہے اسی کے ہاتھ چیز بیچ دی جاتی ہے۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ معاملات یعنی بیچنے والے کا چیز دینا اور خریدار کا قیمت دے دینا کافی ہے اگرچہ وہ دونوں منہ سے کچھ نہ کہیں یعنی زبانی ایجاب وقبول نہ ہو۔