جہاد کی چیزوں میں شرط کا مال لینا جائز ہے
راوی:
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا سبق إلا في نصل أو خف أو حافر " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي
" اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " مسابقت کی شرط کا مال لینا صرف تین چیزوں ( یعنی ) تیر چلانے ، اونٹ دوڑانے ، اور گھوڑ دوڑ میں جائز ہے ۔ " ( ترمذی ، اور داؤد ، نسائی )
تشریح :
" سبق " شرط کی رقم کو کہتے ہیں ، یعنی وہ مال جو آگے بڑھ جانے کی شرط جیتنے والے کو دیا جاتا ہے ۔ اس حدیث سے بظاہر یہ واضح ہوتا ہے کہ ان تین چیزوں کے علاوہ اور کسی چیز میں مسابقت یعنی آگے بڑھ جانے کی بازی لگانا اور اس کا مال لینا جائز نہیں ہے ، لیکن فقہاء نے ان تینوں کے حکم میں ان چیزوں کو بھی شامل کیا ہے جو جہاد کا سامان وذریعہ ہیں جیسے گدھا اور خچر ، گھوڑے کے حکم میں ہیں اور ہاتھی ، اونٹ کے حکم میں ہے ۔ بعض حضرات نے پیدل دوڑنے اور بعض نے پتھر پھینکنے کی مسابقت کو جواز کے حکم میں شامل کیا ہے کیونکہ یہ چیزیں تیر " کے مفہوم میں داخل ہیں ۔
جو چیزیں جہاد کے ذرائع میں شامل ہیں ان کی مسابقت میں شرط باندھنا اور بازی لگانا اور شرط کی رقم لینا دراصل جہاد کی ترغیب دینے کے پیش نظر ہوتا ہے اور اسی لئے اس کا جواز کا حکم بیان کیا گیا ہے ۔ ہاں جو چیزیں جہاد کے اسباب وذرائع میں سے نہیں ہیں ان میں مسابقت کی بازی لگانا اور شرط باندھنا چونکہ ایسے کسی صالح مقصد کے لئے نہیں ہوتا اس لئے نہ تو ان چیزوں میں مسابقت ہی جائز ہے اور نہ اس کی شرط کا مال لینا جائز ہے ۔