مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث 984

جہاد میں کام آنے والا ہتھیار اپنے بنانے والے کو بھی جنت میں لے جائے گا

راوی:

عن عقبة بن عامر قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " إن الله تعالى يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة : صانعه يحتسب في صنعته الخير والرامي به ومنبله فارموا واركبوا وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا كل شيء يلهو به الرجل باطل إلا رمية بقوسه وتأديبه فرسه وملاعبته امرأته فإنهن من الحق " . رواه الترمذي وابن ماجه وزاد أبو داود والدارمي : " ومن ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه فإنه نعمة تركها " . أو قال : " كفرها "

" حضرت عقبہ ابن عامر کہتے ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ ( کفار پر چلائے جانے والے ) ایک تیر کے بدلے میں تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرتا ہے ایک تو اس تیر کے بنانے والے کو جب کہ وہ اپنے روزگار کے ساتھ ثواب کی بھی امید رکھے ( یعنی جب جب وہ تیر بنائے تو اپنے روزگار کے ساتھ نیت بھی رکھے کہ میں یہ تیر جہاد میں کام آنے کے لئے بنا رہا ہوں ) ( دوسرے ) جہاد میں تیر چلانے والے کو اور ( تیسرے ) تیر دینے والے کو ( یعنی وہ شخص جو تیر کے بنانے والے کو جب کہ وہ اپنے روزگار کے ساتھ ثواب کی بھی امید رکھے ( یعنی جب وہ تیر بنائے تو اپنے روزگار کے ساتھ نیت بھی رکھے کہ میں یہ تیر جہاد میں کام آنے کے لئے بنا رہا ہوں ) ( دوسرے ) جہاد میں تیر چلانے ( والے اور ( تیسرے ) تیر دینے والے کو ( یعنی وہ شخص جو تیر انداز کے ہاتھ میں اپنا یا اسی کا تیر دے اور خواہ پہلے ہی دے یا نشانے پر سے اٹھا کر دے ) لہٰذا تم تیر اندازی کرو اور گھوڑوں پر سورای کرو یعنی تیر اندازی اور گھوڑ سواری کی مشق کرو اور تمہاری تیر اندازی میرے نزدیک سواری کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور یاد رکھو انسان جس چیز کو لہو ولعب ( یعنی محض کھیل اور تفریح ) کے طور پر اختیار کرے وہ باطل اور ناروا ہے مگر اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا اپنے گھوڑے کو سدھارنا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیل وتفریح کرنا یہ سب چیزیں حق ہیں ۔ ترمذی ابن ماجہ ابوداؤد اور دارمی نے ( اپنی روایت میں ) یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ اور جو شخص تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس کو بے نیازی اور بیزاری کے جذبہ سے چھوڑ دے تو وہ تیر اندازی ایک نعمت ہے جس کو اس نے چھوڑ دیا ہے یا یہ فرمایا کہ اس نے اس نعمت کا کفران کیا ۔ "

تشریح :
" یہ چیزیں حق ہیں " ان چیزوں کے حکم میں ہر وہ چیز داخل ہے جو حق وبھلائی کی راہ میں معاون ہو خواہ وہ علم کے قبیل سے ہو یا عمل کے قبیل سے جب کہ وہ مقابلہ بازی کی قسم سے ہو جیسے پیدل چلنے اور دوڑنے ، گھوڑ سواری اور اونٹوں کی دوڑ کا مقابلہ وغیرہ ۔

یہ حدیث شیئر کریں