مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث 963

اسلام میں رہبانیت کی گنجائش نہیں

راوی:

عن أبي أمامة قال : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم في سرية فمر رجل بغار فيه شيء من ماء وبقل فحدث نفسه بأن يقيم فيه ويتخلى من الدنيا فاستأذن رسول الله صلى الله عليه و سلم في ذلك فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إني لم أبعث باليهودية ولا بالنصرانية ولكني بعثت بالحنيفية السمحة والذي نفس محمد بيده لغدوة أو روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها ولمقام أحدكم في الصف خير من صلاته ستين سنة " . رواه أحمد

حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لشکر میں نکلے تو دوران سفر جب ہم میں سے ایک شخص ایک ایسی غار (وادی) کے درمیان سے گزرا جس میں کچھ پانی اور سبزہ تھا تو اس نے اپنے دل میں سوچا کہ وہ اسی غار میں رہ جائے اور دنیا سے کنارہ کشی کر لے ۔ چنانچہ اس نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یاد رکھو! نہ تو میں دین یہودیت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں اور نہ دین عیسائیت دے کر کہ میں تم لوگوں کو رہبانیت کی تعلیم دوں ، بیجا مشقت وتکلیف میں مبتلا کروں اور لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور لذات دنیا سے مطلقًا کنارہ کشی کی اجازت دوں بلکہ میں تو دین حنیفہ دے کر بھیجا گیا ہوں جو ایک آسان دین ہے جس میں نہ تو انسانیت عامہ کے لئے بیجا تکلیف وحرج ہے اور نہ زائد از ضرورت مشقت ومحنت ہے قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے دن کے صرف ابتدائی یا آخری حصے میں یعنی صبح وشام کو اللہ کی راہ جہاد میں چلے جانا دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور تم سے کسی کا میدان جنگ کی جماعت نماز کی صف میں کھڑا ہونا اس کی ساٹھ سال کی تنہا پڑھی جانے والی نماز سے بہتر ہے ۔" (احمد)

یہ حدیث شیئر کریں