ایک بیع میں دو بیع نہ کرو
راوی:
وعن أبي هريرة قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن بيعتين في بيعة . رواه مالك والترمذي والنسائي
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے (مالک ترمذی ابوداؤ نسائی)
تشریح :
ایک بیع میں دو بیع کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ کوئی شخص کسی سے یوں کہے کہ مثلًا میں اپنی بھینس ایک ہزار روپیہ کے عوض تمہارے ہاتھ بیچتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ تم اپنا گھوڑا پانچ سو روپے کے عوض میرے ہاتھ فروخت کر دو۔ اس طرح کی بیع درست نہیں ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ مثلًا کوئی شخص کسی سے کہے کہ میں اپنا گھوڑا تمہارے ہاتھ پانچ سو روپے نقد میں اور سات سو روپے ادھار میں بیچتا ہوں یہ بھی ناجائز ہے بشرطیکہ کوئی امر طے نہ ہو اور خریدار کو اختیار حاصل رہے کہ چاہے تو اسی وقت پانچ سو روپے دے کر گھوڑا لے لے اور چاہے بعد میں سات سو روپے دے اور اگر ایک امر طے ہو جائے اور معاملہ مجمل نہ رہے یعنی یہ اسی وقت طے ہو جائے کہ نقد لیا یا ادھار لیا تو پھر یہ معاملہ درست ہوگا۔
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد (شعیب) سے اور وہ اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمر) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معاملے میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے ( شرح السنۃ)
تشریح :
یہ حدیث اور اوپر کی حدیث ہم معنی ہیں جو تشریح اوپر کی حدیث میں کی گئی ہے وہی اس حدیث کی بھی ہے۔
بیع کو قرض کے ساتھ نہ ملاؤ
حضرت عمرو بن شعیب ناقل ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرض اور بیع ایک دوسرے سے متلق کر کے حلال نہیں بیع میں دو شرطیں کرنی درست نہیں اس چیز سے نفع اٹھانا درست نہیں جو ابھی اپنے ضمان قبضہ میں نہیں آئی اور اس چیز کو بیچنا جائز نہیں جو تمہارے پاس یعنی تمہاری ملکیت میں نہیں ہے (ترمذی وغیرہ)
تشریح :
قرض اور بیع حلال نہیں کا مطلب یہ ہے کہ قرض اور بیع کے دو الگ الگ معاملوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک نہ کرنا چاہئے مثلا کوئی شخص کسی کے ہاتھ اس شرط کے ساتھ کوئی چیز بیچے کہ تم مجھے اتنے روپے قرض دینا یہ جائز نہیں ہے یا یہ معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں کہ مثلًا کوئی شخص کسی کو کچھ روپے بطور قرض دے اور اسی کے ساتھ اپنی کوئی چیز اس قرض دار کے ہاتھ اصل قیمت سے زائد پر بیچے یہ حرام ہے کیونکہ اس صورت میں ظاہر ہے کہ خریدار اس چیز کی زائد قیمت محض اس لئے ادا کرے گا کہ اس نے بیچنے والے سے قرض لیا ہے اور یہ بالکل صاف مسئلہ ہے کہ جو بھی قرض کوئی نفع حاصل کرے وہ حرام ہے چونکہ یہ سود خوروں کا نکالا ہوا ایک حیلہ ہے اس لئے اس سے اجتناب ضروری ہے۔
بیع میں دو شرطیں کرنی درست نہیں : کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیع میں دو بیع نہ کرے جس کی وضاحت اوپر کی حدیث میں کی جا چکی ہے لیکن بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیچنے والا اپنی کوئی چیز دو شرطوں کے ساتھ نہ بیچے مثلًا وہ خریدار سے یوں کہے کہ میں نے یہ کپڑا تمہارے ہاتھ دس روپے میں بیچا بایں شرط کہ میں اس کپڑے کو دھلوا بھی دوں گا یہ ناجائز ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ حدیث میں دو شرطوں کی قید محض اتفاقی ہے جیسے بیع میں ایک شرط بھی جائز نہیں ہے۔
اس چیز سے نفع اٹھانا جو ابھی اپنے ضمان میں نہیں آئی کا مفہوم یہ ہے کہ مثلًا ایک شخص نے کسی سے کوئی چیز خریدی مگر وہ چیز ابھی خریدار کے قبضے میں نہیں آئی ہے اس عرصے میں بیچنے والے نے اس چیز کا کرایہ وصول کیا اب اگر خریدار چاہے کہ یہ چیز چونکہ میں نے خریدی ہے اس لئے میری خریداری کے بعد اس چیز کو جو کرایہ بیچنے والے کی ذمہ داری میں ہے فرض کیجئے اگر وہ چیز ضائع ہو جاتی ہے تو اس کا نقصان بیچنے والے ہی کو برداشت کرنا ہوگا خریدار کا کچھ بھی نہ جائے گا اسی طرح اگر اس چیز سے کوئی نفع حاصل ہوا ہے تو وہ بھی بیچنے والے ہی کا حق ہے خریدار کا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔