جو چیز اپنے پاس نہ ہو اس کی بیع نہ کرو
راوی:
وعن حكيم بن حزام قال : نهاني رسول الله صلى الله عليه و سلم أن أبيع ما ليس عندي . رواه الترمذي في رواية له ولأبي داود والنسائي : قال : قلت : يا رسول الله يأتيني الرجل فيريد مني البيع وليس عندي فأبتاع له من السوق قال : " لا تبع ما ليس عندك "
حضرت حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس سے منع کیا کہ میں اس چیز کو نہ بیچوں جو میرے پاس نہیں (ترمذی)
ترمذی ابوداؤد اور نسائی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت حکیم کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے ایک ایسی چیز خریدنے کا ارادہ کرتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی تو میں اس چیز کو بازار سے خرید لاتا ہوں یعنی میں اس چیز کا معاملہ اس سے کر لیتا ہوں پھر وہ چیز بازار سے خرید لاتا ہوں اور اس شخص کے حوالے کر دیتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم کسی ایسی چیز کو نہ بیچو جو تمہارے پاس نہیں ہے۔
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ جو چیز خرید وفروخت کا معاملہ کرتے وقت اپنی ملکیت میں نہ ہو اسے نہیں بیچنا چاہئے اب اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں اول تو یہ کہ وہ چیز نہ تو اپنی ملکیت میں ہو اور نہ اپنے پاس موجود ہی ہو اس صورت میں تو اس چیز کی بیع صحیح ہی نہیں ہوگی دوم یہ کہ وہ اپنی ملکیت میں نہیں ہے ایک دوسرا شخص اس کا مالک ہے لیکن ہے اپنے ہی پاس اس صورت میں بھی مالک کی اجازت کے بغیر اس کی بیع نہیں کرنی چاہئے اور اگر مالک کی اجازت لینے سے پہلے ہی اس کی بیع کر دی جائے گی تو حضرت امام ابوحنیفہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے مسلک کے مطابق وہ بیع مالک کی منظوری پر موقوف رہے گی اگر منظوری دیدے گا تو صحیح ہو جائے گی نہیں تو کالعدم ہو جائے گی لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ وہ بیع سرے سے صحیح ہی نہیں ہو گی مالک خواہ منظوری دے یا نہ دے۔
پہلی صورت کے حکم میں اس چیز کی بیع داخل ہے جس پر قبضہ حاصل نہ ہوا ہو یا وہ چیز گم ہو گئی ہو یا مفرور ہو جیسے غلام وغیرہ اور یا اس کو خریدار کے حوالے کرنے پر قادر نہ ہو جیسے ہوا میں اڑتا ہوا جانور اور وہ مچھلی جو ابھی پانی یعنی دریا وغیرہ سے نہ نکالی گئی ہو لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ ممانعت بیع السلم کے علاوہ صورت میں ہے کیونکہ بیع السلم متعینہ ومعروف شرائط کے ساتھ بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک جائز ہے بیع السلم اور اس کی شرائط کا تفصیلی ذکر انشاء اللہ باب السلم میں کیا جائے گا ۔